صاحب

صاحب
تحریر محمد اظہر حفیظ

صاب ھمارے گاوں کا ایک مزیدار کریکٹر تھا وہ بائیسکل پر خود کو راضی کرنے کیلئے کرتب کرتا تھا کبھی سائیکل چلتی چھوڑ کر اترتا تھا جوتے پہن کر دوڑ کر جا کر اس پر سوار ھوجاتا تھا اس کی سائیکل بھی غریب کے گھر جیسی تھی نہ بریک نہ مڈگارڈ وہ اگلے پہیے کو پاوں لگا کر سائیکل کو روکتا تھا دن کو اسی سائیکل پر شکرقندی بیچتا تھا اور شام کو اپنا دل بہلانے کیلئے وہ سائیکل پر مختلف کرتب کرتا تھا۔ ایک دن وہ ایک عجیب حرکت کر رھا تھا سائیکل کے پیڈل وہ بہت تیزی سے چلارھا تھا پر سائیکل اپنی جگہ پر ھی کھڑی تھی چین گراری سب گھوم رھا تھا پر سائیکل نہیں چل رھی تھی میں بہت حیران ھوا اور بڑے بھائی سے پوچھا پا جی اے کس طرح ممکن ھے تو اس نے کہا صاب دی سائیکل دے کتے فیل ھوگئے نہیں جس کی وجہ سے سب کچھ گھوم رھا ھے پر سائیکل نہیں چل رھی جب بھی کوئی سائیکل پرانی ھوجائے اور اس کی چین اور گراری گھس جائے تو اس کو سائیکل کے کتے فیل ھونا کہتے ھیں۔ میں نے زندگی میں کئی سائیکلیں خریدی بہت چلائیں پر کسی کے بھی کتے فیل نہ ھوسکے۔
آج جس بھی محکمے کو دیکھیں اندازہ ھوتا ھے کہ اس کے کتے فیل ھوگئے ھیں ۔وہ اپنی جگہ تو کھڑے ھیں پر اگے نہیں بڑھ رھے۔
اب تو ایسی کئی مشین بھی بن گئی ھیں جن پر سو سال بھی بھاگتے رھو وہ اپنی جگہ ھی کھڑی رھتی ھیں اس کی وجہ سمجھ آگئی ھے کہ انکے کتے فیل ھوگئے ھیں۔
ھمارے ملک کی زیادہ تر انڈسٹری اور محکموں کے کتے فیل ھیں اور وہ کئی سالوں سے اپنی جگہ پر کھڑے ھیں اگے پیچھے کسی طرف بھی حرکت نہیں کرتے گورنمنٹ انکے شہسوار بھی بدلتی ھے اور وہ اسی جگہ پہیے گما گما کر چلے جاتے ھیں اور ادارے وھیں رہ جاتے ھیں۔میرے سمندری میں بہت سارے دوست ھیں کچھ پروفیسر ھیں کچھ ڈاکٹر ھیں کچھ کاروباری حضرات ھیں۔ پاپوش ھاوس ایک بہت شاندار جوتوں کا سٹور تھا۔ ان کے دو بیٹے میرے بھائیوں جیسے دوست ھیں ۔ خوب ھنسی مذاق چلتا ھے۔ شدید تحریک انصاف کے محبت کرنے والے ھیں ۔ آج بات ھوئی پوچھا کاروبار کیسا ھے کہنے لگے بڑے بھائی وہ تو بند کردیا ۔ خیریت وہ کیوں ۔ میرا خیال تھا اس حکومت کو کچھ کہے گا کہنے لگا اصل میں پہلے لاھور دور تھا اور لوگ ھماری دوکان پر آتے تھے اب موٹروے کی وجہ سے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر لاھور ھے سب وھاں خریداری کرنے جاتے ھیں۔ میں نے ازارہ مذاق کہا پھر تو آپ کے کاروبار کا بیڑہ غرق شریف برادران نے کیا ھے جو سڑکیں بنائی ھیں بہت ھنسا بھائی جو مرضی رنگ دے لیں۔ آپ بڑے بھائی ھیں مجھے دکھ بھی ھوا ان کے کاروبار بند ھونے کا اور ان کی تحریک انصاف سے محبت پر خوشی بھی ھوئی۔ میرے استاد پروفیسر معراج الدین خان صاحب مرحوم اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں امین علامہ محمد اقبال صاحب سے شدید عشق کرتے تھے میں اس بات سے حسد کرتا تھا اور علامہ اقبال صاحب کی شخصیت میں خامیاں تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا۔ لاھور نیشنل کالج آف آرٹس میں تھا تو ایک دن پتہ چلا کہ علامہ محمد اقبال صاحب سے ایک قتل ھوگیا تھا۔ بس مجھے ایک پوائنٹ مل گیا میں سکائی ویز کی کوچ میں بیٹھا سیدھا اسلام آباد۔ اپنے گھر جانے کی بجائے سیدھا استاد کے گھر پہنچ گیا۔ انھوں نے مینگو جوس سے تواضع کی اور چائے کا حکم دے دیا۔ ھاں جی میرے آرٹسٹ کیسے آنا ھو۔ جو میرے اندر تھا کہہ دیا سر سنا ھے علامہ محمد اقبال صاحب نے ایک قتل بھی کیا تھا۔ بہت تحمل سے انھوں نے جواب دیا اگر علامہ صاحب نے قتل کیا ھوگا تو ٹھیک ھی کیا ھوگا۔ میں نے عشق اور محبت میں کسی عاشق کا اس سے بہتر جواب نہیں سنا۔ میرے اس دن بھی کتے فیل ھوگئے کہ میں لاھور سے ایک بات لیکر آیا ھوں پر استاد صاحب کے تو کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ 
محترم وزیراعظم صاحب عوام آپ سے بہت شدید محبت کرتی ھے۔ اور انکی توقعات بھی آپ سے اسی حساب سے بہت زیادہ ھیں ۔ 72 سال میں سب چیزوں کے کتے فیل ھوچکے ھیں ھر چیز ھنگامی امداد کی آس لگائے بیٹھی ھے ۔ مجھے امید واثق ھے آپ ھم سب کو ناامید نہیں کریں گے۔ انشاءاللہ اللہ آپ کا حامی و ناصر ھو ۔
اور اس کی مدد آپ کے ساتھ شامل حال ھوجائے۔امین۔

Prev کھیل
Next کاروبار

Comments are closed.