عشق
عشق
تحریر محمد اظہر حفیظ
عشق بھی کرتے رھے اور کام بھی ، کبھی کام سے عشق کیا اور کبھی صرف کام کیا، گھومنا پھرنا، تصویریں بنانا، لوگوں سے ملنا، طرح طرح کے کھانے کھانا ان کو بنانے کی ترکیب سیکھنا پھر گھر آکر تجربے کرنا، لوگوں کو دیکھنا ان کو سمجھنے کی کوشش کرنا، بیشتر زندگی ایسے ھی گزار دی، کچھ لوگ زندگی میں اچھے لگے اسی کو عشق سمجھتا رھا پر شاید عشق کی سمجھ نہیں تھی اور ھوا بھی نہیں تھا، زندگی مزے میں گزر رھی تھی کہ کچھ ھفتے پہلے پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام رائزنگ پاکستان کا سب سے اچھا شو ھوا جس میں توثیق حیدر صاحب کے ساتھ شاھد مسعود بھائی مہمان تھے، شاھد مسعود بھائی سے تعلق بہت عمدہ ھے، اور زندگی کا طویل سفر ساتھ ھے، ھر ملاقات میں انکی گفتگو سے کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ھے، بہت اعلٰی شاعر ھیں، بہت بڑے میڈیا کے استاد ھیں، پاکستان ٹیلیویژن سے بطور پروڈیوسر سفر کا آغاز کیا اور پروگرام مینیجر کے طور پر ریٹائر ھوئے، آج کل پڑھنا، پڑھانا اور لکھنا انکی مصروفیت ھے، بہت شفیق اور بذلہ سنج انسان ھیں، کمال گفتگو کرتے ھیں، اردو، انگلش، فارسی زبان میں اچھی مہارت ھے، مولانا رومی کو اور انکے لکھے کو سمجھنے کیلئے ان کے ساتھ کئی نشستیں ضروری ھیں، لیکن اس پروگرام میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا موضوع انکی شاعری اور عشق تھا، اس پروگرام کو باربار دیکھ چکا ھوں بہت سے دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کیا لیکن شاید اسکا حق ادا نہیں کرسکا، مجھے آج تک عشق، عشق کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آسکا، اشفاق صاحب کہتے تھے جس کی ناں بھی ھاں سنائی دے پر میری تشفی نہ ھوسکی، بہت سمجھنے کی کوشش کی اور ایک جملہ ادا ھوا، شاھد مسعود بھائی نے فرمایا ” عشق منزل نہیں راستہ ھے” بار بار سنا اور جھومتا رھا۔ مجھے شاید اس سے بہتر کوئی عشق سمجھا نہیں سکا، ھر پہلو پر سوچا کبھی دینی پہلو اور کبھی دنیاوی پہلو دونوں طرف الگ الگ مزا تھا، عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں آپ انکے بتائے ھوئے راستے پر چلیں عشق کرکے دکھائیں، ھر پہلو پر انہوں نے راھنمائی فرمائی ھے، کیسے سونا ھے کیسے اٹھنا ھے، وضو کیسے کرنا ھے نماز کیسے ادا کرنی ھے، اولاد کے حقوق، ماں باپ کے حقوق، یوم حساب کیا ھوگا، دینی فرائض، دنیاوی فرائض کتنا آسان ھے اور کچھ نہیں کرنا بس عمل کرنا ھے اور کچھ بھی نہیں، عشق ایک راستہ ھے چل پڑیں عشق کرتے جائیں،
پھر شاھد مسعود بھائی فرمانے لگے کہ عشق میں ھار جیت نہیں ھوتی، تو کئی عشق ھی جھوٹ نظر آنا شروع ھوگئے جو عشق کو فتح کرنے روز گھر سے نکلتے ھیں، ایک مقام پر توثیق حیدر صاحب پوچھنے لگے سر عشق کی کیفیت کیا ھے تو جواب بہت کمال تھا” عشق وہ ھے جو حیران کردے” واہ واہ
مجھے بہت سی باتیں یاد آنے لگیں اتنے دن گزرنے کے باوجود میں اس پروگرام کے سحر سے نہیں نکل سکا، جب آپ عشق کے راستے پر چل نکلتے ھیں تو آپ ان سب باتوں کو فالو کرتے ھیں جو اس راستے میں اچھی سمجھی گئیں یا بری سمجھی گئی کچھ باتوں کو پسند کیا گیا اور کچھ سے منع فرمایا گیا، سالہا سال عشق کے راستے پر سفر کرنے کے بعد جب آپ بلکل ویسے بن جاتے ھیں جیسا کہ اس راستے میں ھدایات جاری ھوئیں تو ایک جملہ بہت کمال کا سننا پڑتا ھے کہ آپ پہلے جیسے نہیں رھے، آپ بدل گئے ھیں، بلکل درست جس راستے پر آپ چلے ھیں شاید اس کا انجام ایسا ھی ھوتا ھے، عشق کسی اور کو حیران کرے یا نہ کرے مجھے تو اس راستے پر چلنے سے حیران ھی کرگیا، میں ابھی بھی عشق کے راستے کا مسافر اس سفر پر گامزن رھنا چاھتا ھوں، یہ تو پتہ چل گیا کہ عشق کی کوئی منزل نہیں ھے پر راستہ تو ھے اور میری ایک عجیب عادت ھے کئی دفعہ مجھے پتہ ھوتا ھے کہ میں راستہ بھول گیا ھوں پر چلتا رھتا ھوں، کیونکہ مجھے منزلوں پر پہنچنے کا شوق ھی نہیں ھے مجھے سفر کا شوق ھے تو کیا ھی اچھا ھو اگر یہ سفر عشق کے راستے پر آپکو گامزن کردے، میرے لیئے دعا کیجئے گا کہ میں سیدھے راستے پر رھوں اور اگر بھٹک بھی جاوں تو وہ پھر مجھے سیدھے راستے سے ملا دے،
azhar
November 16, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020