عمر حیات محل چنیوٹ

عمر حیات محل چنیوٹ

تحریر محمد اظہر حفیظ

خواھش تھی کہ عمر حیات محل دیکھا جائے، پھر کچھ دوستوں نے بتایا کہ اس کی حالت اتنی اچھی نہیں ھے سب سے اوپر والی منزل پر تو جانے کی اجازت بھی نہیں ھے، جس سے بھی رابطہ کیا ،کچھ دوست اسلام آباد پہنچنے والے تھے اور کچھ لاھور تھے پر جانے کی ٹھان لی، یہ بھی بتایا گیا کہ سڑکیں بہت خراب ھیں، پر میں کہاں رکنے والا تھا، میں اور میرا کیمرہ ھم دونوں ھی اکثر ھمسفر ھوتے ھیں، دونوں نکل پڑے میدان میں، بہت سارے خیالات تھے خواب تھے چنیوٹ کے بارے میں سب سے پہلے عمرحیات محل دیکھوں گا پھر لکڑی پرکارونگ کا کام دیکھوں گا، پھر دریائےچناب کنارے چلا جاوں گا اور سورج غروب ھوتا دیکھوں گا، پر کوئی اس اندھے کا ھاتھ پکڑنے کو تیار نہیں تھا، ایکدم خیال آیا میرے پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھی شکیل کی بہن اور فیملی چنیوٹ میں رھتے ھیں انکا بیٹا اچھا فوٹوگرافر ھے اور میرے رابطے میں بھی رہتا ھے، بس پھر حازق جاوید کو فون کیا، بہت ھی احترام سے بولا سر یقین نہیں آرھا کہ آپکا فون ھے، اس کو فون کی وجہ بتائی اور اس نے فورا سب انتظامات کردیئے، وہ خود تو لاھور تھا پر اسکے دوست فاران اور سمیع نے مکمل ساتھ دیا اور ھر خواب تک پہنچنے میں مدد کی، حازق کا ایک محبت بھرا جملہ سر میں امی سے کہتا ھوں فورا کھانا تیار کریں، بہت اچھا لگا، نہیں میرے بیٹے وہ پھر کسی دن آج وقت کم ھے اور مقابلہ سخت ھے ، فاران کی ٹانگ دو جگہ سے فریکچر تھی پر وہ ھرجگہ ساتھ رھا، اب آتے ھیں سفر کی طرف، سنا تھا کہ صنعتی انقلاب کیلئے ذرائع مواصلات بہت ضروری ھوتے ھیں، اس کی چنیوٹ سےعمدہ مثال اور کہیں نہیں ملتی، کارونگ والے فرنیچر میں چنیوٹ پوری دنیا میں نمبر ون ھے، مجھے بتایا گیا کہ لاھور روڈ بہت خراب ھے آپ فیصل آباد موٹروے سے چنیوٹ جائیں، حکم کی تعمیل ھوئی، فیصل آباد موٹروے پر جہاں چنیوٹ کا بورڈ آیا گوگل باجی کی راہنمائی میں سفر شروع کیا الحمد للہ بہت سےگاوں سے ھوتے ھوئے میں پھر لاھور روڈ پر ھی تھا، دنیا میں شاید ھی اس سے بری کوئی سڑک ھو، دس کلومیٹر کی سپیڈ سے 35 کلومیٹر کا سفر گھنٹوں پر محیط ھوجاتا ھے ، مزا تب آیا جب اس کے درمیان میں ایک ٹول ٹیکس والا بھی تھا تیس روپے ادا کئے جس کا دکھ بھی تھا پھر سوچا چلو فقیر سمجھ کر ھی دے دیتے ھیں، آگے تحصیل چوک میں فاران اور سمیع منتظر تھے، انھوں نےعمر حیات محل کے کھلوانے کا انتظام کیا ھوا تھا، محل بھی سڑک کی طرح خستہ حال تھا یقینا دونوں کی انتظامیہ ایک ھی تھی، پر نقش و نگار بتارھے تھے کہ کبھی ھم بھی خوبصورت تھے، ھر چیز خستہ حال ھونے کے باوجود ھنر مندوں کی اپنے ھنر میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھی، حکومت وقت کو فورا اس عمارت کی حفاظت کے انتظامت کرنے ھونگے، ورنہ ھم جلد ایک قیمتی ورثہ سے محروم ھوجائیں گے، عملہ بہت تعاون کرنے والا ھے، اور عمارت اب ایک لائبریری کا روپ دھار چکی ھے پر اسکی کشش اپنی جگہ پر قائم ھے، عمرحیات محل کی تصاویر بناکر ھم فرنیچر کارونگ والوں کی تلاش میں نکل پڑے، فرنیچر تو بہت تھا پر کارونگ والے کم ھی نظر آئے، وھاں سے روزانہ سینکڑوں گاڑیاں مختلف شہروں کیلئے روانہ ھوتی ھیں، زیادہ فرنیچر تو سڑک ھی ٹھیک کردیتی ھوگی، پھر یہ بھی سمجھ آیا کہ لوگ کورا فرنیچر کیوں لیکر جاتے ھیں شاید پالش شدہ اور رنگ شدہ فرنیچر کو سڑک ھی رگڑ دیتی ھوگی، پھر ھم چاروں دریائےچناب پر گئے سورج بادلوں کی نظر ھوگیا ، کھانے کی دعوت تھی فاران اور سمیع کی طرف سے بہت شاندار کنہ گوشت کھایا، اور پتہ چلا کنہ گوشت یہاں کی مشہور ڈش ھے، شکریہ دوستو اور واپسی کی راہ لی، پھر وھی تباہ شدہ راستہ تھا، ٹول پلازہ اور تبدیلی کا سفر مجھے تو یہی لگا پہلی سڑک کو اکھاڑ کر شاید نئی سڑک بنانے کی سوچ ھے، بس ٹول ٹیکس کی شکل میں چندہ اکٹھا ھورھا ھے جلد سڑک بن جائے گی، اگر کسی بھی دوست کے علم میں اس سے بری 35 کلومیٹر طویل سڑک ھے تو میرے علم میں ضرور لائے، ورنہ میری طرف سے یہی فائنل ھے، اربوں روپے فرنیچر کی مد میں کاروبار میں لانے والے اور کروڑوں روپے ٹول ٹیکس دینے کے بعد ایسی سڑک کوئی بڑی تبدیلی والی حکومت ھی لاسکتی ھے، اگر دھی کسی برتن میں ڈال کر رکھ دیں تو موٹروے تک بہترین لسی تیار ملے گی، آزمائش شرط ھے، جب اس سڑک کے بعد آپ موٹروے پر سفر شروع کرتے ھیں تو بے ساختہ جھوٹے بیمار، مفرور اور چور یاد آجاتے ھیں، اللہ غارت کرے ھماری عادتیں خراب کر گئے ھیں، ڈیڑھ گھنٹہ دس کی سپیڈ پر گاڑی چلانے کے بعد کافی دیر تک ایک سو بیس سپیڈ کی ھمت نہیں ھوتی، بس بندہ چوروں کو گالیاں ھی دیتا رہتا ھے،

شکریہ حکومت پنجاب، شکریہ زیرہ پلس صاحب ۔

Prev چل رھن دے
Next شالامار باغ لاھور

Comments are closed.