قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

تحریر محمد اظہر حفیظ

سب سے پہلے ھم سورہ اخلاص کو بمعہ اردو ترجمہ پڑھتے ھیں
سورۃ الاخلاص
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ
کہہ دو وہ اللہ ایک ہے۔
اَللَّـهُ الصَّمَدُ
اللہ بے نیاز ہے۔
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ
نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وَلَمْ يَكُنْ لَّـهٝ كُفُوًا اَحَدٌ
اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔

نہ ھی آیات کو جھٹلایا جا سکتا ھے اور نہ ھی چیلنج کیا جاسکتا ھے، قرآن مجید ایک ایسی کتاب ھے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ باری تعالٰی نے خود لے رکھی ھے،

اور جب سے یہ کتاب نازل ھوئی الحمدللہ اپنی اصل حالت میں قائم ھے کئی صدیاں گزرنے کے باوجود اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہ ھو سکی بہت سے لوگوں نے کوشش کی لیکن ناکام ھوئے کیونکہ کروڑوں حافظ قرآن اپنے سینے میں اس کو اللہ کے فضل سے محفوظ کئے ھوئے ھیں،

سستی شہرت حاصل کرنے کی کئی کوششیں صدیوں سے جاری ھیں، ھر کوئی اپنی عقل کے مطابق کوشش کرتا ھے، کچھ ادبی لوگوں کا خیال ھے کہ آزادی اظہار بہت ضروری ھے لیکن اپنے ماں باپ کو تو گالی برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ھر کسی کا ذاتی معاملہ ھے، اور اگر کوئی نعوذ باللہ میرے اللہ اور انبیاء کرام علیہ اسلام پر بات کرے تو وہ اس کو آزادی اظہار کا نام دیتے ھیں،

شادی اپنی ھو یا اولاد کی نکاح بھی پڑھواتے ھیں ، فوت ھوجائیں تو جنازہ بھی ضروری ھے ، باقی سب اعتراضات دین اسلام پر ھی لگاتے ھیں، اپنے بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے ھیں، نماز کا حکم بھی دیتے ھیں بڑھاپے میں نمازی بھی ھوجاتے ھیں اور سوشل میڈیا پر مدر پدر آزاد ھوجاتے ھیں، حال ھی میں ایک پاکستانی کالم نگار اور افسانہ نگار جن کے نام کا حصہ بھی اللہ تعالٰی کا صفاتی نام ھے نے کئی سال عزت کما کر یہ سمجھ لیا کہ اب وہ اس قابل ھوگیا ھے کہ اس کو اللہ باری تعالٰی پر بھی افسانہ لکھنا چاھیئے، اور بے شک اس سے اللہ کی آیات کی نفی ھی ھو، سورہ اخلاص میں اللہ باری تعالٰی نے صاف الفاظ میں اپنی وحدانیت کا ذکر کیا، اور وہ یقینا واحدہ لا شریک ھے ، اس پر نہ تو بحث ھو سکتی ھے اور نہ ھی افسانے لکھے جا سکتے ھیں، مجھے ایک صاحب نے کہا کہ اخباری اور ادبی سوچ میں فرق ھوتا ھے، میں اللہ کے آگے سجدہ ریز ھوگیا شکر الحمد للہ میرا ایسے ادب سے اور ادبی لوگوں سے دور کا واسطہ نہیں ھے، کچھ ادبی لوگ کہہ رھے ھیں کہ نعوذبااللہ اللہ کا تمسخر اڑانے والے صاحب کو دھمکیاں مل رھی ھیں، تو اے ادبی لوگو ، جب میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہا گیا کہ کہہ دو میرے لئے اللہ ھی کافی ھے، اور ان کے امتی اللہ کو ھی اپنا سب کچھ سمجھتے اور مانتے ھیں اور جس کو آپ اپنا سب کچھ سمجھتے اور مانتے ھو اس کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کرے تو آپ کے خیال میں ایسے افسانہ نگار کو کالم نویس کو کیا تغموں سے نوازا جائے اکیس توپوں کی سلامی دی جائے یا پھر پھولوں کے ھار پہنائے جائیں،

مجھے تو وہ سوشل میڈیا پر ایک ادبی شخص کا سٹیٹس نہیں بھول رھا کہ “تم تنہا نہیں ھو ھم تمھارے ساتھ ھیں” او اللہ کے بندوں جو تنہا ھے اس کے بیوی، بچے، ماں باپ تلاش کر رھے ھو اور جو اولاد آدم ھے اس کو تسلی دے رھے ھو تم تنہا نہیں ھو، ادب کے معیار کا بلند ترین درجہ ھے کہ نعوذ باللہ اللہ باری تعالٰی کو سکھایا یا بتلایا جائے کہ تم نے کام کیسے کرنا ھے، اس آزادی اظہار کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ھے ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں بھی کچھ ادبی لوگوں نے سورہ فیل لکھنے کوشش کی تھی، کچھ لوگ اس کو سندھ سے جوڑنے کی بھی کوشش کر رھے ھیں، یہ کوئی علاقائی مسئلہ نہیں ھیں سب علاقے ھی اچھے ھیں ، مت تو کسی کی بھی کسی علاقے میں ماری جا سکتی ھے، اگر کوئی سٹھیا گیا ھے تو علاقے کا کیا قصور، برائے مہربانی ان صاحب کو علامہ محمد اقبال صاحب سے ملانے کی بھی کوشش نہ کی جائے شکوہ اور جواب شکوہ ضرور پڑھیئے، پر سمجھ کر پڑھیئے، اللہ تعالٰی ھماری راھنمائی فرمائیں آمین جو دوست احباب غلط راستے پر ھیں انکو سیدھا راستہ دکھائیں آمین، بے شک وہ بہتر عطا کرنے والے ھیں اور اس کی قدرت رکھتے ھیں ، الفاظ کے چناو میں جہاں بھی غلطی ھوئی ھو میں اللہ باری تعالٰی اور اپنے احباب سے معافی کا درخواست گزار ھوں، جزاک اللہ خیر، اس معاملے پر جو دوست قطع تعلق کرنا چاھتے ھیں ضرور کریں، بے شک میرے لئے میرا اللہ ھی کافی ھے،

Prev زندہ
Next دوسری دفعہ

Comments are closed.