لائلپور
لائلپور
تحریر محمد اظہر حفیظ
صبح سویرے اٹھنا، نہانا، کپڑے بدلنا، سر پر سرسوں کا تیل لگانا اور پھر ابا جی کا ٹھوڈی سے پکڑ کر سر میں کنگھی کرنا، کالی بند جوتے پہنانا ، پاوڈر لگانا اور میری امی جی سے کہنا لو چوھدری صاحب باو تے تیار ھوگیا، تیار ھوکر میں صبح صبح ھی تائی جی اسلام علیکم اور تائی جی نے کہنا اظہر اقبال ماں دا لعل کتھے چلا اے، تائی جی لائلپور۔
اس طرح مہینے دو مہینے بعد لائلپور، غلام محمد آباد نانا جی، خالہ جی اور ماموں جی سے ملنے جاتے تھے یا پھر چچا جی کے گھر حاجی آباد جاتے تھے،
اس بات کو چالیس سال گزر گئے ھم گاوں سے 1981 میں اسلام آباد ھجرت کر آئے، سب تو اسلام آباد آگئے پرمیں جہاں بھی گیا رھا اپنے گاوں میں ھی، میرے زندگی کے گیارہ سال جو گاوں میں گزرے وہ میرے چالیس سال سے زیادہ قیمتی اور یادگار ھیں شہر شہر، گاوں گاوں گھوم کر بھی میں ذھنی طور پر اپنے گاوں میں ھی رھا، پاکستان سے باھر بھی گیا مختلف ملک دیکھے پر لائلپور جیسا کوئی نہ تھا،
نانگا پربت بھی دیکھا رانا پوشی بھی اور بہت سی پہاڑی چوٹیاں بھی پر کوئی بھی میرے گاوں کے مٹی کے ٹیلے سے اونچا نہ تھا، درخت بھی بے شمار دیکھے پر جو درخت کی خوبصورتی ٹاہلی کے درخت کی تھی کم ھی دیکھی، پھل بھی کئی دیکھے پر جو کیکر کی پھلی کا مزا تھا ھلکی ھلکی مٹھاس اور پھر پیٹ میں درد وہ کہیں نہ ملی، جو لڈو گاوں میں ملتا تھا اتنا سخت مزاج لڈو بھی کم ھی دیکھا اینٹ سے توڑ کر کھانا پڑتا تھا جو میلہ ڈجکوٹ میں دیکھا وہ شاید ھی کہیں اور دیکھا ھو، تربیلا ڈیم بھی دیکھا، منگلا ڈیم بھی، راول ڈیم بھی، جھیل سیف الملوک بھی، لولوسر جھیل بھی، حنا لیک کوئٹہ بھی، سلیمو لیک چائنہ بھی، کناس لیک چائنہ بھی اور بہت سارے سمندر بھی دیکھے پر میرے گاوں کا چھپڑ سب سے خوبصورت اور بڑا تھا، چالیس سال گھوم پھر کر فیصلہ کیا لائلپور چلتے ھیں، نئے کپڑے، نئے جوتے، نئے کوٹ لئے ھیں بیٹیاں پوچھتی ھیں بابا جی کدھر کی تیاری ھے پتر جی لائلپور جارھا ھوں تیار ھوکر، آپ لوگ بھی ساتھ چلو، بابا ٹھہریں گے کہاں، پتر سارا لائلپور اپنا شہر ھے جدھر دل کرے گا، کبھی مدینہ ٹاون، کبھی غلام محمد آباد ، کبھی ملت ٹاون، کبھی سمندری، کبھی ڈجکوٹ، کبھی ریلوے اسٹیشن، کبھی جی ٹی ایس، کبھی کمپنی باغ، کبھی گھنٹہ گھر، کبھی فیصل گارڈن سارا لائلپور اپنا ھی ھے ھر جگہ ٹھہریں گے، بس پتر صاف ستھری بن کر جانا، نہا دھو کر، کنگھی کرکے، بڑا مقدس شہر ھے، میرا بس چلے تو باوضو ھی جاوں اور آوں،
کچھ دوست پوچھتے ھیں یہ لائلپور کہاں ھے اس کا تو نام بدل گیا ھے اب فیصل آباد ھوگیا ھے، نہ جی نہ میں تو لائلپور سے ھی آیا تھا اور لائلپور ھی جاوں گا اگر پتہ فیصل آباد کا لکھ دیا تو کہیں محکمہ ڈاک والے مجھے واپس ھی نہ کردیں، چالیس سال بعد میں اپنے لائلپور جارھا ھوں اپنا تیس سال کا کام لیکر کہ اپنے وطن کے لوگوں کو دکھاوں کہ میں نے کیا دیکھا اور کہاں کہاں گیا، سب کو سارا پاکستان دکھاوں گا اور دوسرے ملک بھی پر مجھے خوشی ھے کہ میں لائلپور جاوں گا اور دیکھوں گا لائلپور۔
دکھ اس بات کا ھے کہ اب ٹھوڈی پکڑ کنگھی کون کرے گا اور نلکے کے تازہ پانی سے نہلائے گا کون، وہ تو سب ھی چلے گئے جن کے ساتھ جن کو ملنے جاتے تھے،
28 جنوری 2021 میں ھونگا اپنے شہر اپنے پیاروں کے درمیان اور تب تک لائلپور رھوں گا جب تک وہ سب نہیں دیکھ لیتا جو دیکھنے سے رہ گیا، میری فوٹوگرافی کی نمائش ھے 28 جنوری دن ایک بجکر تیس منٹ پر سٹوریہ آرٹ سٹوڈیو 135- سی ڈی گراونڈ پیپلز کالونی لائلپور اور یہ جاری رھے گی چار فروری تک، آپ سب کو دعوت ملاقات ھے، نمائش کیا ھے بس ملنے کا ایک بہانہ ھے اور قرض ھے میرے شہر لائلپور کا مجھ پر جو اتارنے آرھا ھوں اور جی بھر کر دیکھوں گا لائلپور اور اسکے رھنے والوں کو، کچھ لوگ کہتے ھیں برج خلیفہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے مسکراتا ھوں انکی سادگی پر کہ شاید انھوں نے ابھی تک گھنٹہ گھر لائلپور نہیں دیکھا ورنہ ایسا دعوی ھرگز نہ کرتے۔
azhar
January 26, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020