مجھے غلامی سے آزاد کروائیے۔

مجھے غلامی سے آزاد کروائیے۔
تحریر محمد اظہر حفیظ

ماشاء اللہ ھمارے پاس دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیاں ھیں ۔ اور وہ بہت ھی زیادہ محتاط بھی ھیں اور باخبر بھی۔
لیکن کچھ حرکتیں ایسی ھیں جن کا علاج انکو سوچنا چاھیئے۔ گوگل ارتھ پر آپ دنیا کے کونے کونے کو دیکھ سکتے ھیں۔ یہاں تک کے بہت ھی خفیہ جگہوں کو بھی۔گوگل میپ کی مدد سے آپ بہت سی جگہوں پر جا سکتے ھیں۔
الحمدللہ ھم بہت ساری جگہوں پر موبائل ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ وھاں جمع کروانا پڑتا ھے اور شناختی کارڈ بھی۔ بہت سی دیواروں پر فوٹوگرافی منع ھے لکھا ھوتا ھے۔یہ آڈر کون نکالتا ھے کیا ان صاحب کو اندازہ نہیں کہ وہ کیا روک رھے ھیں جبکہ سب کی تصویریں فری میں مل رھی ھیں۔ پل کی تصویر نہیں لے سکتے، کینٹ ایریا میں کیمرہ لیجانا اور فوٹوگرافی کرنا دونوں منع ھیں۔ جی اگے ممنوعہ علاقہ ھے کیمرے بیگ سے باھر مت نکالیں۔ جی بہتر، ملتان ائیرپورٹ سے پہلے جمیلہ آباد چوکی پر ھمیں روک لیا بیگ میں کیا ھے جی کیمرے سوری آپ کیمرے ساتھ نہیں لے جاسکتے کیوں حکم ھے کینٹ میں کیمرہ لیجانا منع ھے بھائی کل آیا تھا ایک دن میں یہ آڈر کیسے ھوگیا بس سے بک کروادیں۔ جب لیکر آئے ھیں تو ساتھ ھی لیکر جائیں گے ایک گھنٹہ دھوپ میں کھڑے رھے سب دوستوں سے سفارشیں کروائی بلاوجہ کے احسان لئے کسی کے پاس کوئی لکھا ھوا حکم نامہ نہ تھا۔ اتنا کام کرکے شرافت کی زندگی گزارنے اور کمتر ھونے کا احساس مار دیتا ھے۔ پندرہ سال سے ایک سکول میں بچے پڑھتے ھیں بچوں ساتھ جاو تو کتے سونگھتے ھیں پھر موبائل اور شناختی کارڈ جمع ھوتا ھے تو جانے کی اجازت ملتی ھے جب سکول کے اندر پہنچتے ھیں تو اپنے گھٹیا اور کمتر ھونے کا احساس پھر سے جاگ جاتا ھے۔ وہ صفائی والے سے لیکر پرنسپل تک سب موبائل استعمال کررھے ھوتے ھیں اور کچھ فرشتہ نما والدین رزلٹ کارڈ کی تصویریں بنا رھے ھوتے ھیں ۔ھم فیس بھی زیادہ ادا کرتے ھیں اور الحمدللہ ھماری عزت بھی زیادہ کی جاتی ھے گیٹ سے لیکر ھر لیول تک جتنی عزت ھونے چاھیئے اس سے کہیں زیادہ ھوتی ھے اوئے کی آواز سے شاندار استقبال ھوتا ھے پھر مجھے اپنی بے بسی پر رونا آتا ھے۔
رونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ھوں۔ چوتھی بچی سرکاری سکول میں داخل کروائی ھے بے شک نہ پڑھے پر بے عزتی تو نہیں ھوتی۔ ایک ھوائی سکول میں پڑھانے کا اتفاق ھوا مضمون فوٹوگرافی تھا ایک دفعہ ھی اتفاق ھوا باھر کلاس لینے کا شدید گرمی تھی ابھی کلاس نے کام شروع ھی کیا تھا گولف کلب تھا سر کلاس سے کہیں گھاس پر پاوں نہ رکھیں خراب ھوجاتی ھے ۔ ویٹر تھا جو حکم دے رھا تھا جی سر کہہ کر کلاس کو بلایا سر کیا ھوا کچھ نہیں بیٹے ھم گولف کلب کی تصاویر نہیں بنا سکتے آو چلتے ھیں۔
پاکستان مونومنٹ اسلام آباد پر آپ کیمرہ سٹینڈ کے ساتھ فوٹوگرافی نہیں کر سکتے عجیب منطق ھے۔منگلا ڈیم تصویر مت بنائیں پلیز سیکورٹی کا ایشو ھے کیا ایشو ھے خود بنارھے ھو اور ھم کہ ٹھہرے اجنبی۔
مجھے جب بھی کوئی تصویر بنانے سے روکتا ھے تو میری سانسیں رکنا شروع ھوجاتی ھیں ۔ ڈارون تو اب آپ خواب میں بھی نہیں اڑا سکتے بہت خطرہ ھے لوگ غوری میزائل اس سے فائر ھی نہ کردیں۔ اچھا کیا پابندی لگا دی ورنہ تو تباھی بہت ھونی تھی۔ بھائی گورنمنٹ پیسے ادا کرے ڈارون ھم سے خرید لے۔
آج صبح دامن کوہ پر جارھا تھا شکر الحمدللہ اکیلا ھی تھا ورنہ چیک پوسٹ والے ھر جوڑے کو روک کر تفتیش فرما رھے تھے اس سے کرائم کنٹرول کرنے میں کافی کمی آئی ھے اب کار چوری،موبائل چھیننا جیسی سب وارداتیں قابو میں ھیں اور جوڑے جمع پونجی جمع کروا کر دامن کوہ کا راستہ بھول جاتے ھیں اور واپسی کو ھی غنیمت تصور کرتے ھیں۔
سیکورٹی اچھا کام ھے درخواست ھے وھاں کریں جہاں اسکی ضرورت ھے۔ بلاوجہ تنگ نہ کریں ۔ھماری پولیس کو وہ انسان بھی نہیں سمجھتے ساتھ اپنا فوجی ھر جگہ لگاتے ھیں تاکہ وہ پولیس کی نگرانی کر سکیں۔
میری گورنمنٹ آف پاکستان سے افواج پاکستان سے التماس ھے تھوڑی سی آسانی کردیں ۔ اب اعصاب جواب دیتے جارھے ھیں۔
ھم بدقسمت لوگ ھیں۔ جن پر کوئی اعتماد نہیں کر سکتا۔ ھر کوئی شک ھی کرتا ھے ۔ کسی کے پاس جواب ھے کہ ھر جگہ دو پیٹرولنگ گاڑیاں کیوں ھوتی ھیں ایک رینجرز کی اور ایک پولیس کی۔ کیا گورنمنٹ کو کسی ایک پر اعتماد نہیں ھے اس طرح ھم گاڑیوں اور پیٹرول کا خرچہ آدھا کر سکتے ھیں ۔ بے اعتمادی اس لیول تک بڑھ چکی ھے کہ دوست آپس میں اعتماد نہیں کرتے، بیوی بچے اعتماد نہیں کرتے کیونکہ ھم پر کوئی بھی اعتماد نہیں کرتا۔
میں اپنے ملک میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا تو پھر کہاں چلوں گا میری راھنمائی کیجئے۔
میں کسی دوسرے ملک بھی نہیں جانا چاھتا اور میں اپنے ملک میں عزت سے جینا چاھتا ھوں مجھے اجازت دی جائے۔
میں نے آج مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے نیک نیتی سے آدھا گھنٹہ انتظار کیا اور دعا کی یاللہ کشمیر کو اور ھمیں آزاد کردے۔ کشمیر تو انشاءاللہ جلد آزاد ھوجائے گا شاید پاکستان کی آزادی کیلئے ھمیں روزانہ چوبیس گھنٹے کھڑا ھونا پڑے گا۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ مالکوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بھی ستر سال کردی جائے تاکہ یہ ایکٹینشن کا رولا ھی ختم ھو جائے اور مارشل لا کا بھی۔

Prev خیالی پلاؤ
Next ناٹک

Comments are closed.