محترم وزیراعظم صاحب
محترم وزیراعظم صاحب
تحریر محمد اظہر حفیظ
محترم وزیراعظم صاحب سیروسیاحت کے فروغ کی کوششوں میں پاکستانی فوٹوگرافرز ایک ھراول دستے کا کام کر سکتے ھیں اگر ان کیلئے کچھ آسانیاں کردی جائیں۔
صوبائی سطح پر اور وفاقی سطح پر فوٹوگرافرز کو رجسٹر کیا جائے۔ اس سلسلے میں انکو باقاعدہ دستاویزی کارڈ جاری کئے جائیں۔ جو کہ ان کے کام میں آسانی پیدا کریں۔ جو رجسٹرڈ فوٹوگرافرز کی فہرستیں ھیں وہ تمام سیکورٹی اداروں کو مہیا کی جائیں۔ اس اقدام سے ایک تو سیروسیاحت کو بہت فروغ ملے گا، اور مثبت پاکستان کا چہرہ بھی دنیا کو دکھایا جاسکے گا۔
جو ادارہ فوٹوگرافرز کو رجسٹرڈ کرے وہ انکے کام کی سالانہ نمائشوں کا اھتمام کرے اور اس کو پاکستان کے سب بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں ھمارے سفارتخانوں میں بھی نمائش کیلئے پیش کیا جائے۔ تاکہ دنیا ھمارے، پہاڑ، دریا، جھیلیں، سمندر، صحرا ، کھیل، ورثہ سب سے روشناس ھوسکیں۔ رجسٹرڈ فوٹوگرافرز کو پابند کیا جاسکتا ھے کہ وہ سالانہ پانچ عدد تصاویر ادارے کو مہیا کرے گا جو کہ نمائش میں کام آسکیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی پر مشتمل کتب، پوسٹ کارڈ اور پوسٹر بھی پرنٹ کئے جائیں۔ اس طرح سے باقاعدہ ایک صنعت کی بنیاد رکھی جاسکتی ھے، نمائش میں فروخت ھونے والی تصاویر میں سے فوٹوگرافر کو بھی حصہ دیا جائے تاکہ اس کام کی مزید ترویج ممکن ھوسکے۔ اس سلسلے میں مختلف سووینئرز بھی بنائے جائیں جیسا کہ چائے کے کپ، ماوس پیڈ، شرٹس، ٹوپیاں، ٹی کوسٹر، بیگز، کشن اور بہت کچھ۔ تاکہ جو سیاح پاکستان آئیں وہ واپسی پر تحائف کی صورت میں یہ اشیاء اپنے ممالک لے جا سکیں۔ بے شک ایک تصویر ایک ھزار لفظ بولتی ھے ۔ یہ تصویریں ساری دنیا میں ھماری سفارتکار بن جائیں گی۔
سوشل میڈیا کا دور ھے۔ تمام فوٹوگرافرز مختلف پلیٹ فارمز پر تصاویر اپلوڈ کرتے ھیں جو کہ ھماری سیروسیاحت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا مثبت چہرہ بھی دنیا کو دکھائیں گی۔
جہاں بہت سے اقدامات آپکی حکومت سیروسیاحت کی ترقی کیلئے اٹھا رھی ھے کچھ نظر کرم اس طرف بھی کیجئے۔ پاکستان میں ھر جگہ فوٹوگرافی پر پابندی عائد ھوتی جارھی ھے۔ ھر جگہ اجازت کا بندوبست کرنا ھر فوٹوگرافر کے بس کی بات نہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سی قیمتی تصاویر بننے سے محروم رہ جاتی ھیں۔ اس سلسلے میں متعلقہ تمام اداروں کو اکٹھا کیا جائے اور لائحہ عمل طے کیا جائے، وقت بدل چکا ھے گوگل ارتھ پر تمام جگہوں کی رسائی ممکن ھے پر ھمارے اکثر مقامات پر کئی دھائیاں پرانی تختیاں نصب ھیں یہاں تصویر بنانا منع ھے۔ اس سلسلے میں سینئر فوٹوگرافرز ورکشاپس کروائیں جو تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی کی اخلاقیات اور قوائد وضوابط بارے بھی آگاہ کریں کہ کونسی تصاویر ھمارے ملک کیلئے بہتر ھیں اور کونسی نقصان دہ ھیں۔ تاکہ ھر فوٹوگرافر کو اپنی حدود کا اندازہ ھو اور وہ ان میں رہ کر کام کریں۔ ابھی فوٹوگرافرز ڈیجیٹل کیمرہ، موبائل کیمرہ اور ڈرون کیمرہ کے ذریعے فوٹوگرافی اور ویڈیوز کرتے ھیں آپ ان کی مختلف کیٹیگری بنا دیں اور اجازت والے علاقوں کی فہرست جاری کردیں۔ امید واثق ھے کہ فوٹوگرافرز بھی واضع کردہ حدود کراس کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اگر اس سلسلے میں گورنمنٹ آف پاکستان فوٹوگرافرز کی مدد کرے تو بہت مثبت پاکستان ابھر کر سامنے آسکتا ھے۔ خلاف ورزی کرنے والے فوٹوگرافر کو سزا کے طور پر کچھ عرصے کیلئے بین بھی کیا جاسکتا ھے اور اسکی باہمی صلاح مشورے سے سزا بھی تجویز کی جاسکتی ھے۔ فوٹوگرافرز بہت دور دور سے سفر کرکے جب منزل پر پہنچتے ھیں تو پتہ چلتا ھے یہاں فوٹوگرافی کرنے کی اجازت نہیں ھے، اب تو بادشاہی مسجد لاھور، لاھور قلعہ، مسجد وزیر خان، داتا دربار، تمام ریلوے سٹیشنز، مزار بری امام، مزارگولڑہ شریف، فیصل مسجد، ایوب پارک، مزار شاہ شمس ، مزار شاہ رکن عالم، مزار بہاودین ذکریا، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، نور محل، صادق گڑھ پیلس، مکلی، شاہجہاں مسجد، جہانگیر کا مقبرہ، شالیمار باغ، راول ڈیم، منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم، تمام موٹرویز کہاں کہاں کا ذکر کریں سب جگہ فوٹوگرافی پر پابندی ھے۔ اس سلسلے میں جہاں مشاورت کی ضرورت ھو سب فوٹوگرافرز حاضر ھیں، انشاءاللہ سب پاکستانی فوٹوگرافرز کام کرنے کیلئے ھر گھڑی تیار گامزن ھیں۔ محترم وزیراعظم اس طرف توجہ دیجئے اور مثبت رزلٹ دیکھئے۔ جزاک اللہ خیر
azhar
August 23, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020