منزلیں سفر کرتی ھیں

منزلیں سفر کرتی ھیں

تحریر محمد اظہر حفیظ

عشق ایک راستہ ھے منزل نہیں، اور مجھے تو ایسے محسوس ھوتا ھے منزل بھی ایک راستہ ھی ھے کسی کا یہ راستہ بہت طویل ھے اور کسی کا یہ راستہ اگلے قدم پر اختتام پذیر ھوتا ھے، کچھ احباب طویل سفر کرکے اپنی خود ساختہ منزل پر پہنچتے ھیں تو ھار جاتے ھیں کیونکہ وہ وھاں اکیلے کھڑے ھوتے ھیں دور دور تک کوئی ساتھ نہیں ھوتا، بعض دفعہ ھم کئی گھنٹوں کا سفر کرکے جہاں پہنچتے ھیں تو پتہ چلتا ھے کہ کوئی چند منٹ میں ھیلی کاپٹر پر وھاں پہنچا ھے اور آپ جیسوں کے داخلے پر پابندی ھے، مجھے تو آج تک یہ منزلیں اور یہ راستے کبھی سمجھ نہیں آئے، اور اکثر منزلیں ھم سے دور ھیں اور دور سے دور ھوتی جارھی ھیں، سنا تھا محنت تجربہ کا متبادل ھے پر کوئی جملہ مکمل کرنا بھول گیا کہ درست سمت میں محنت تجربہ کا متبادل ھے، زندگی کا آغاز گاوں سے کیا کھیت کھلیان، پرفضا موسم، ھر چیز سادہ، خالص ، رشتے مخلص، پر احساس ھوا اس سے اگلی منزل تو شہر سے ملتی ھے، ساری زندگی گزار کر جب جو کا دلیہ، دیسی آٹا، خالص دودھ، دیسی شہد، سبزیاں، دیسی گھی، مکھن، پالک، ساگ، آلسی کا آٹا ، دیسی مرغیاں، مٹی کے برتن اور صاف پانی کی تلاش شروع ھوئی تو سمجھ نہیں آرھی منزل وہ تھی جو میں پیچھے چھوڑ آیا ھوں یا پھر واپس جانا منزل ھے، میرے بھائی کو سمجھ نہیں آتی کہ میں گاوں کے چکر کیوں لگاتا ھوں، کیا بتاوں اس کو کہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ سادگی میں، میں منزل پیچھے چھوڑ آیا ھوں، پر عجیب صورتحال ھے گاوں اب گاوں سے دور چلا گیا ھے، اب وھاں بھی مرغی خانے بن گئے ھیں دودھ کمپنی والے لے جاتے ھیں آبادی بڑھ گئی ھے، کھیت ھاوسنگ سوسائیٹیز بن گئے ھیں، پانی گندا ھو چکا ھے کچھ زندگی پانے کیلئے ملک سے باھر چکے گئے ھیں، انکی عورتیں بیوہ عورتوں کی طرح نظر آتی ھیں، بچے یتیم محسوس ھوتے ھیں، ماں باپ بے اولاد دکھائی دیتے ھیم، کوئی کسی کا نہیں جانتا سب اپنی اپنی منزل کی تلاش میں ھیں، ایک جامعہ مسجد سے اب چار جامع مساجد بن چکی ھیں اب دین میں بھی منزل مشکل ھوگئی ھے ھر کوئی یہی کہتا ھے میرے دین میں آجاو اسی میں فلاع ھے، دین محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے لوگ دور ھورھے ھیں، اور مختلف فرقوں میں تقسیم ھونے کو اپنی نجات سمجھ رھے ھیں، منزلیں دور ھوتی جارھی ھیں، ھزاروں میل دور بیٹھے سمجھ رھے ھیں ویڈیو کال سے سب مسائل حل ھوجاتے ھیں، سب کمیاں مکمل ھوجاتی ھیں، اپنے ماں باپ کی ساتھ رہ کر خدمت اور چند ڈالر یا پونڈ بھیجنے میں بہت فرق ھے، ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں میں موجود ھونا اور ویڈیو کال میں بہت فرق ھوتا ھے، ابھی تک ویڈیو کال میں چھونے، گلے لگانے، ٹانگیں دبانے، رونے، مسکرانے اور چپیڑوں کی سہولت ابھی میسر نہیں ھے، میری آپ سب سے درخواست ھے جب منزل کی تلاش میں نکلیں تو ساتھ اپنے احباب کو بھی لیکر جائیں ورنہ وہ منزل آپکی تو ھوسکتی ھے آپکے خاندان کی نہیں، کچھ دوستوں نے دین کو بھی پنجاب کالج بنایا ھوا ھے کہ میرے بچے ھر نماز کے بعد مجھے واٹس ایپ پر میسج کرتے ھیں، باپ اور اولاد دونوں کمال کرتے ھیں، کچھ دوستوں کی دین پر گہری نظر ھے پر وہ بھول جاتے ھیں کہ ھمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جہاد سے بھی ایک خاص مدت بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو گھر بھیج دیتے تھے اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرکے آئیں، کیا فریج، ٹی وی، اےسی، گھر، فرنیچر، مہنگی تعلیم ھی منزل ھے یا پھر گھر والوں کے ساتھ گھر میں رھنا منزل ھے، کرونا کا فاصلہ دومیٹر دوری اصل میں قبر کا سائز ھے کہ منزل تیری دو میٹر ھے اور گھر تیرے کنالوں پر محیط ھیں، قبرستان میں کچھ قبریں تو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق کچی ھیں اور کچھ چھوٹے بڑے سائز کے تاج محل ھیں وھی سنگ مرمر۔ کچھ دوستوں نے تو کمال کردیا ھے قبر پر سولر لائٹ بھی لگوا دی ھیں انکا خیال ھے کہ اس طرح شاید قبر روشن ھوجاتی ھے، پھر وہ اس نیکی کی تشہیر شروع کرتے ھیں سوشل میڈیا پر ، سمجھ نہیں آرھی ھماری منزل کیا تھی اور ھم کس منزل کی تلاش میں ھیں، کل ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کا ایک خطاب سننے کا موقعہ ملا، سورہ آلرحمن کے بارے میں بتارے تھے کہ اللہ کی رحمت سے ھی سب کو ملے گا جو بھی ملے گا آپ کے جو بھی اعمال ھیں اس میں اللہ کی رحمت شامل ھوگی تو منزل مل پائے گی، اور رحمت کے طالب سب ھی ھیں، تو پھر ھم لوگوں سے کیا طلب کر رھے ھیں، جب یہ اختیار صرف اللہ باری تعالٰی کا ھی ھے، بے شک وہ ھی سب سے بڑے الرحمن اور الرحیم ھیں۔ اللہ تعالٰی سب کی منزلیں آسان بنائیں، آمین

Prev سب اچھا ھورھا ھے
Next چائے دی لسی

Comments are closed.