مہنگائی
مہنگائی
تحریر محمد اظہر حفیظ
مہنگائی کا سنا تھا شکرالحمدللہ اب دیکھ بھی لی۔
جب 1981 میں ہم راولپنڈی آئے تو آٹے کا بیس کلو کا تھیلا 26 روپے کا ملتا تھا اور اب 2023 میں وہ 2600 کاہوگیا ہے فرق صرف دو صفر کاہے اور سنا ہے خالی صفر کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمیں کیا ہمارے حساب سے تو 26 روپے کا ہی ہوا کیا ہواجو ساتھ دو صفر لگ گئے ہیں۔ پیٹرول سات روپے لیٹر ہوتا تھا اور 30 لیٹر کا ٹینک 210 روپے کا فل ہوجاتا تھا اب 250 روپے کا لیٹر ہے ٹینک کا سائز وہی ہے پر اب سات ہزارپانچ سو روپے کا فل ہوتا ہے کوئی اتنا خاص فرق نہیں ہے بس چند صفر کا ہی فرق ہے۔ ہم گاوں میں بھی سات مرلے کے گھر میں رہتے تھے اور شہر میں بھی سات مرلے کے گھر میں ہی رہتے ہیں۔ پہلے گرمیوں میں بجلی کے اور سردیوں میں گیس کے بل زیادہ آتے تھے الحمدللہ اب دونوں موسموں میں دونوں ہی بل زیادہ آتے ہیں۔ سات مرلے کے گھر کے بل ناقابل برداشت ہیں اور جو سینکڑوں کنال کے گھروں میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں ہم کام بھی کچھ نہیں کرتے وہ بیچارے بل کیسے دیتے ہوں گے۔ کچھ عقلمندوں کا خیال ہے مہنگائی مصنوعی طور پر ہے پر ہمیں تو ہر لمحے اصل ہی لگتی ہے۔ نظام قدرت سنا ہے ویسے ہی چل رہا ہے۔ لوگ آفشور کمپنیاں بنا رہے ہیں اور ہماری جو ایک دوستوں کی کمپنی تھی کبھی کبھار مل بیٹھتے تھے وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔
پہلے منرل واٹر، چکی کا آٹا ، بغیر کھاد کے سبزیوں کا رواج آیا اور پھر تو آخیر ہوگئی جب کرونا کے دنوں میں آکسیجن بھی سلنڈروں میں آنا شروع ہوگئی، شکر الحمدللہ آکسیجن تو اب دوبارہ کھلی فضا میں شامل ہوکر آنے لگ گئی ہے ورنہ ایک نیا خرچہ شروع ہوگیا تھا۔ ایک تجویز ہے اگر گورنمنٹ ریسرچ کرائے کہ انسان ایک دن میں کتنی اکسیجن استعمال کرتا ہے اور مہینے کی کتنی تو پھر گھر کے افراد کے حساب سے اسکا بھی بل موصول کیا جاسکتا ہے اگر گورنمنٹ کی عقل میں یہ بات نہ آئے تو کم از کم آئی ایم ایف تو اس بارے میں سوچ سکتی ہے۔
اس سے پاکستانی عوام کا مزید جینا محال کیا جاسکتا ہے روٹی ایک روپے سے پچیس روپے تک کا سفر طے کرچکی ہے امید ہے مزید ترقی کرے گی۔
جب آپ اخراجات کی سوچ میں گم جارہے ہوتے ہیں اور پیچھے سے کئی سائرن بجاتی گاڑیاں آپ کو حقارت بھرے اشاروں سے راستے سے ہٹنے کے اشارے کرتی گزرتی ہیں اور سمجھ آجاتا ہے یہ معاشرے میں خودکش حملہ آور کیسے جنم لیتے ہیں۔ شاید یہ دہشت گرد نہیں بھوک اور امیروں کے ستائے ہوئے لوگ ہوتے ہیں
مجھے یاد ہے 2009 میں مینگورہ سوات میں تصویر بنانے کیلئے سکول جاتی ایک پہلی کلاس کی بچی سے کہا تھا کہ بیٹا مسکراو تو وہ کہنے لگی چاچا جب تمھارے سامنے تمھارے اپنوں کی گردنیں کاٹی جائیں تو کیا آپ ساری زندگی مسکرا سکتے ہیں اور میں رونے لگ گیا میری ہنسی کو گم ہوئے آج 14 برس ہوگئے ہیں اس دن کے بعد میں دوبارہ مسکرا نہیں سکا مسکرانے والی باتوں پر بھی اکثر رو دیتا ہوں ۔ اور دیکھنے والوں کو کہتا ہوں خوشی کے آنسو ہیں۔
مجھے نوادرات کو سبھالتے، فائیو سٹار ہوٹل بناتے اور بڑی عمارات بنانے والے بے حس لوگوں کی سمجھ نہیں آتی کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور ادھر کہتے ہو،پراپرٹی کا بوم ہے شرم مگر تم کو آتی نہیں۔
کروڑوں مالیت کی گاڑیوں والے ننگے پاوں ننگے دھڑ لوگوں کی جب مدد کا اعلان کرتے ہیں تو شرم سے مر کیوں نہیں جاتے۔ بڑی گاڑی کے آگے ہزار روپے کی خوراک کی تقسیم اور ایک بیس ہزار روزانہ کا فوٹوگرافر تصاویر بنانے پر مامور۔
واہ میرے مولا تیرے رنگ کن کم ذات لوگوں کو کن کاموں پر لگا دیا ہے۔
آج ایک کرکٹر کی دو تصاویر دیکھیں۔ تبلیغی اجتماع میں سادگی سے لالہ سو رہے ہیں ۔ اللہ ہو اکبر تقسیم خوراک کے بعد اب تبلیغی اجتماع میں بھی فوٹوگرافر ساتھ ساتھ۔
مجھے نہیں پتہ کہ اللہ تعالی سوشل میڈیا اکاونٹس کو مانیٹر کرواتے ہیں یا نہیں پر اب سب نیک اعمال سوشل میڈیا پر ہی ہوتے ہیں۔اللہ تعالی سب کا سوشل میڈیا قبول فرمائیں آمین۔ اور اگر آپ نے اس. جمعہ کو جمعہ مبارک کا میسج نا،بھیجا تو یاد رکھیں آپ کی بخشش بہت مشکل ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے واٹس ایپ پر تمام اسلامی اور غیر اسلامی تہواروں کے مبارکباد کے میسج بھیجنا واجب ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے آمین آپ یہ آرٹیکل اکیس لوگوں کو آگے بھیجیں آپ کو خواب میں کم مہنگائی دکھائی دے گی ۔ اور خوشی میسر آئے گی۔ شکریہ
azhar
February 14, 2023
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020