میں کہاں رھتا ھوں

میں کہاں رھتا ھوں

تحریر محمد اظہر حفیظ

اکثر جب بھی کسی دوست احباب سے ملاقات ھوتی ھے سوال کیا جاتا ھے آپ کہاں رھتے ھو، مجھے خود نہیں پتہ کیا بتاوں بس چپ ھی رھتا ھوں اگر بتادوں تو ان کے ذھن میں کیا کیا آئے مجھے اس کا اندازہ بھی نہیں، گیارہ سال زندگی کے لائلپور سے 25 کلومیٹر آگے سمندری روڈ پر میرا گاوں ھے 258 ر ب پھرالہ وھاں گزار دیئے اور باقی زندگی کے 39 سال راولپنڈی اسلام آباد میں گزر گئے، 34 سال سے والدین کے گھر اسلام آباد میں مقیم ھوں، اس تمہید باندھنے کا مقصد یہ ھے کہ جاگتے سوتے کسی بھی حالت میں ان جگہوں پر کبھی رہ ھی نہیں پایا، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں کبھی گھر پر موجود ھوں، عجیب کم اور غریب زیادہ ھوں، ھر وقت گھر سے باھر ھی رھتا ھوں، گھر بستر پر لیٹ کر بھی کبھی ساحل سمندر پر گوادر میں سیپ تلاش کرتا ھوں اور وھاں سے سیدھا خنجراب پاس چلا جاتا ھوں ، دنوں کے سفر لمحوں میں کرنے کا کرم میرے رب نے مجھ پر کردیا ھوا ھے، اکثر سجدے میں حرم پہنچ جاتا ھوں اور کسی دفعہ تو مقام ابراہیم پر نوافل بھی ادا کر آتا ھوں، طواف کرنا مجھے بے حد پسند ھے اور اکثر حالت طواف میں ھوتا ھوں، جب پہنچتا ھوں حاضری کیلئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر تو خوش نصیبوں میں شمار ھوتا ھوں پھر چلتے چلتے مسجد نبوی کے صحن میں لگی سرخ لائن میرے قدم روک دیتی ھے کہ امام سے آگے مت نکلو باجماعت نماز اس لائن سے پیچھے ھوگی، پھر مجھے ھر طرف لگی سرخ لائنیں نظر آنا شروع ھوجاتی ھیں کن کن کام سے روکا گیا ھے، جب رک جاتا ھوں تو لوگ سمجھتے ھیں بدل گیا ھوں، میں ویسا ھی ھوں جیسا پہلے تھا بس سرخ لائنوں سے اور سرخ بتیوں سے خبردار ھوجاتا ھوں، کچھ دوست ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتے ھیں اگر وہ صرف مدینہ کا سکون ھی پاکستان لے آئیں تو امید ھے مدینے والے خوش ھوں گے، خیالوں میں ھی چلتے چلتے کبھی میں قصور پہنچ جاتا ھوں بابا بلھے شاہ اور قصوری فالودہ دونوں پر حاضری ضروری ھے ، ایسے بابے بھی کم ھوئے اور ایسا فالودہ بھی کم ھوا، ربڑی، برف، میٹھا، سویاں، قلفی سب الگ الگ پیالوں میں اپنی مرضی سے فالودہ بنائیے اور کھائے، قصور بس گیا ایک بے قصور کو قصور وار ثابت کرتے کرتے، بلھے شاہ کو قبر کیلئے جگہ نہ دی شہر میں اور پھر قبر کے ساتھ ھی شہر بس گیا، پھر جو قصور شہر میں ھورھا ھے اس کے قصوروار بھی یہ قصوری خود ھیں، کوئی کہندا اے قصور بلھے شاہ دا اے تے کوئی کہندا اے قصور نورجہاں دا اے پتہ نہیں قصور کس دا اے پر قصور قصور دا اے، خیالاں وچ کدھی ملتان پہنچ جانا واں، شاہ شمس تبریز دا مزار تے اس تے بلدے دیوے، نیلیاں ٹائلاں دا کم ۔ کدھی پہنچ جاناں واں شاہ رکن عالم اس دے کبوتراں نوں دانہ پاناں واں دعا کردا واں تے نکل جاناں واں ڈھول دی آواز سن کے دھمال نہ ڈالنا بھی ایک بدذوقی اے، سب دے سامنے دھمال ناں وی پاواں پر اندروں اندر ھر ویلے دھمال وچ مست رھنا واں، شاید ھی میرے نال دا کوئی آوارہ گرد ھوئے جیڑا خود تے آوارہ ھے ھی پر اس دے خیال اس توں وی زیادہ آوارہ نے، کل خیالاں وچ شوگران چلا گیا اوتھے کوئی وی نہیں سی میں تے پائن پارک ھوٹل کلے ھی سن ھر پاسے برف ھی برف سی میرے پیر جدوں بہت ٹھنڈے ھوگئے تے فر میں رضائی وچ کرلئے، میری بیٹی کہندی اے آف بابا آپ کے پاوں بہت ٹھنڈے ھیں پتر شوگران وچ ٹھنڈی ھی بہت اے، چلیں رضائی میں بیٹھیں میں ھیڑ چلاتی ھوں، وہ ھیٹر چلا کر چلی گئی اور میں پھر گھر سے نکل گیا رضائی اوڑھی ھوئی تھی ھیٹر چل رھا تھا سب ساتھ ھی لے لیا زادہ راہ کے طور پر کہ اب سردی نہ لگے، اگے فٹ پاتھ پر میری طرح ایک مجذوب لیٹا ھوا تھا رضائی اس کو دے دی اور کچھ میری طرح کے نشئی ٹھٹھر رھے تھے انکو ھیٹر دے دیا بہت دعائیں دی انھوں نے سگریٹ بھی جلا لئے اور آگ بھی سینک لی، واپسی پر وہ پھر ٹھٹھر رھے تھے، مجھے دیکھ کر پہچان لیا اور باو جی ھور ھیٹر ھے، پہلا کتھے او ویچ سامان لے آندا اے پر ھن آگ لان دے پیسے نہیں نے اگر ایک ھیٹر مل جائے تے گزارا ھوجائے، ادھر سے نکلا نیشنل کالج آف آرٹس لاھور کے بوائز ھاسٹل چلا گیا انھوں نے اندر داخل نہیں ھونے دیا، بڑی سیکورٹی تھی جیسے یہ اب گرلز ھاسٹل ھو، دیواروں پر کنڈادار تار، سیکورٹی گیٹ بندوق والے گارڈ ، جب دو باجی ٹائپ طالبعلم وھاں سے نکلے تو احساس ھوا یہ بھی ضروری ھے، انکی حفاظت کیلئے اتنی ھی سیکورٹی چاھیئے، میں دن رات سفر میں رھتا ھوں، گھر والے کہتے ھیں رات کو سوتے کیوں نہیں ھیں کیا بتاوں گاڑی چلاتے سوجاوں تو حادثہ ھوجائے گا یا پھر وقت پر نہیں پہنچ پاوں گا، آپ میری راھنمائی کیجئے میں کہاں رھتا ھوں، کیونکہ مجھے تو سمجھ نہیں آرھی کہ میں کہاں رھتا ھوں، شاید میں سفر میں ھی رھتا ھوں
 

 

Prev بلاوجہ
Next شہر جب صحرا بنے

Comments are closed.