میں کیا کروں

میں کیا کروں

تحریر محمد اظہر حفیظ

2020 جاتا ھوا نظر آرھا ھے اور عجیب بات ھے اس کا بھی آخری مہینہ دسمبر ھی ھے، اور دسمبر میں لوگ شعر و شاعری شروع کردیتے ھیں اور جو انکے بچوں کی ماں نہیں بن پائی اس کو یاد کرکر کے مگر مچھ کے آنسو اور بھینس والی آھیں بھرتے ھیں، کچھ لوگوں نے زندگی میں ایسا کچھ بھی تو نہیں کیا ھوتا کہ جس کو وہ یاد کرسکیں کیونکہ ان کے سسٹم میں نہ ھی مطلوبہ سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی اس کال کیلئے بیلنس ھوتا ھے، سب سے زیادہ وہ ھی دسمبر میں آہ و زاری کرتے نظر آتے ھیں، کچھ دوست بہت اھتمام کے ساتھ لکھتے ھیں کہ یہ دن اگلے سو سال بعد آئے گا، میری تو دعا ھے یہ گزرا سال ھی دوبارہ کبھی نہ آئے، بے شک سو سال بعد یا ھزار سال بعد۔ جتنی اموات ھم نے اس سال کرونا کی وجہ سے دیکھی ھیں شاید ھی کبھی دیکھی ھوں اور اللہ باری تعالٰی کبھی دکھائے بھی نہ، غزوان شمشاد صاحب، طارق محمود صاحب ، ارشد وحید چوھدری صاحب ، عمران افضل کے والد صاحب، وکی چوھدری کی والدہ صاحبہ، رانا عمر کے والد رانا عبدالرحمن صاحب، داود صاحب، عبدالوارث حمید صاحب کے تایا، پھوپھا اور ماموں، نواز شریف صاحب کی والدہ، خالو اسلم صاحب، راجہ عتیق کی والدہ صاحب، وقاص قدوسی کی والدہ صاحبہ، اورنگزیب اسلم صاحب کے والد صاحب اور بہت سے دوست احباب کے بہن بھائی، والدین اس دنیا سے چلے گئے، سب کے نام فردا لکھنا تو شاید ممکن نہیں پر دل سب کیلئے خون کے آنسو روتا ھے، جب بھی کسی کی بیماری کی خبر سنتے ھیں فورا دعا شروع کردیتے ھیں یا اللہ صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی عطا فرما آمین صحت کاملہ عطا فرما آمین، پر آج کل شاید دعائیں بھی چائنہ کی آرھی ھیں قبول ھوتی نظر نہیں آتیں، اب تو کئی دفعہ دعا کرتے ڈر بھی لگتا ھے کہ میرا رب ھمارے سے ناراض ھے جو ھماری دعائیں نہیں سن رھا پھر سجدے میں پڑ جاتے ھیں قرآن کھول لیتے ھیں منانے کی کوشش کرتے ھیں، روتے ھوئے بھی لوگوں کو مسکرا مسکرا کر دیکھتے ھیں کہ اللہ کو پسند ھے کہ اسکی مخلوق سے کوئی مسکرا کر پیش آئے، شاید معاف کردے راضی ھوجائے، کام ھر طرف بند ھیں، بے روزگاری بڑھ رھی ھے، بھوک افلاس کا دور دورہ ھے، گرمی تو غریب آدمی گزار ھی لیتا ھے گھبراتا بھی نہیں ھے پر سردی کا کیا کریں ناچاھتے ھوئے بھی انسان گھبرا ھی جاتا ھے، انڈسٹری چلنا شروع ھوگئی ھے اور مزدور مرنا شروع ھوگئے ھیں، خالی پیٹ تیتر ھی لڑ سکتا ھے انسان نہیں، پاکپتن والوں کے تو کتے بھی ائرکنڈیشنڈ پنجروں میں رھتے ھیں اور ان کے چاھنے والوں کے بھی۔ انکو کیا غریب پر کیا گزر رھی ھے، اب تو نہ دربار غریب کی سنتے ھیں اور نہ ھی سرکار، سرکار کے گھر اساتذہ گئے تھے خوب آو بھگت کی شاید اساتذہ کا دن تھا استقبالیہ پر آنسو گیس اور لاٹھی پر رکھ کر چائے پیش کی گئی، انکی ایسی درگت بنائی گئی کہ شاید انھوں نے بائیس کروڑ عوام کو پڑھانے پر اتنا رُولایا نہ ھوگا، مجھے یاد ھے جب سردی میں ھاتھ پر ڈنڈا پڑتا تھا تو فورا اس کو بغلوں میں دبا لیتے تھے کہ شاید ھاتھ گرم کرنے سے کچھ آرام ملے، انکو مطلوبہ سہولت بھی نہیں دی گئی بلکہ فورا ھتکڑی لگا کر گرفتار کر لیا کہ ان کے ھاتھ گرم کرنے کا بندوبست نہ ھوسکے، کچھ استادوں نے آنسو گیس کے دھوئیں پر ھاتھ سینکنے کی کوشش کی تو پتہ چلا یہ دھواں ذرا اور طرح کا ھے، یہ جلاتا تو ھے پر آنکھوں اور سانس کو، زندگی گزار دی اپنے والدین بھی چلے گئے، سب نے ھی جانا ھے، نہ وہ رھے نہ ھم نے رھنا ھے، ان سارے حالات میں اگر دسمبر آئے یا جائے تو میں کیا کروں۔ دعا ھی کرسکتے ھیں اور کچھ بس میں نہ تھا نہ ھے،نہ ھی یہ کسی دربار اور سرکار کے بس میں ھے، میرے اللہ آسانیاں عطا کردیں، آمین بے شک اللہ ھی سب چیزوں پر قادر ھیں اور معاف کرنے والے ھیں۔

Prev کینوس
Next بلاوجہ

Comments are closed.