نئے رشتے دار
نئے رشتے دار
تحریر محمد اظہر حفیظ
یار تجھے رولانا آگیا ھے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ھر تحریر میں رولاتے ھی رھو، امین اقبال ،
امین اقبال میرے جوانی سے بڑھاپے کے دوست ھیں، ھم دونوں ھی ایک دوسرے کا کام پر بے لاگ تبصرہ کرتے ھیں، امین اقبال، رائٹر، ڈائریکٹر ھیں اور اب بطور اینکر وکھرے کے نام سے یوٹیوب پر پروگرام کرتے ھیں، جس کو دیکھ کر ماشاءاللہ انکی مختلف شعبوں پر گرفت اور علمی عبور کا اندازہ ھوتا ھے، وہ کبھی خلیل الرحمٰن قمر صاحب سے سوال جواب کررھے ھوتے ھیں اور کبھی عفت عمر سے گفتگو کرتے ھیں کبھی سید سرفراز علی شاہ انکے مہمان ھوتے ھیں اور کبھی خاور ریاض سے وہ دینی اور عملی زندگی کی گفتگو کر رھے ھوتے ھیں، مختلف سوچنا، لکھنا اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں بہت ماہر ھیں، اللہ تعالٰی انہیں مزید روشنی اور وسعت عطا فرمائیں آمین،
ایک رات دیر تک ھم دوست احمر اے رحمن، ملک محمد اشرف اور امین اقبال بیٹھے رھے اور موضوع تھا میری تحریریں، ان تینوں کی راھنمائی نے میری تحریروں کا رخ بدل دیا، اور رونے اور رولانے والی تحریروں سے دور ھوتا گیا، پچھلے کچھ دن میں میرے دوست رانا عمر کے والد صاحب ، عمران مان صاحب کی والدہ صاحبہ، عزیر احمد صاحب کی والدہ صاحبہ اگلے جہاں کے سفر پر روانہ ھوگئیں، اللہ تعالٰی سب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین، پیر والے دن رانا عمر کے پاس دعا کیلئے حاضر ھوا انکے والد صاحب پچھلے پچیس سال سے دوست تھے سپیشل برانچ میں ملازم تھے اور وھیں سے ریٹائر ھوئے، نوکری کے آخری سالوں میں وہ بلکل بدل گئے ھر سال حج پرجانا، باجماعت نماز ادا کرنا، تہجد، اشراک کی مکمل پابندی کرنا، روزانہ کی بنیاد پر سب دوست احباب کو دعائیں اور احادیث بھیجنا انکا معمول تھا ، دعا کے بعد اپنے کمرے میں واپس آیا تو ایک میسج آیا، جی میں ڈیوٹی پر آگیا ھوں، عمران مان،
عمران مان ایک سخت طبعیت کا جٹ ھے جس بات پر اڑ جائے پھر اسکی سوچ کو بدلنا مشکل ھوجاتا ھے، میں بہت محتاط ھوکر اس سے گفتگو کرتا ھوں، شدید محنتی انسان ھے، میں یہ سب سوچتا اسکے کمرے کی طرف جارھا تھا، دروازہ کھولا تو سامنے ایک مختلف انسان کھڑا تھا شاید جو مان اسکے نام کا حصہ ھے وہ ماں کے دم سے ھی تھا، وہ عمران تو تھا پر مان شاید ساہیوال رہ گیا تھا، گلے لگے اور دونوں رو دیئے نہ کوئی عمران مان تھا اور نہ ھی کوئی محمد اظہر حفیظ بس دو یتیم اور دو مسکین گلے لگ کر ایک دوسرے کا دکھ بانٹ رھے تھے، ھم دونوں اپنی اپنی ماوں کی باتیں سنا رھے تھے جیسے کسی ایک ھی ماں کے دوبیٹے اپنی ماں کو یاد کر رھے ھوں، میرے منہ سے بار بار عمران صاحب کی جگہ بیٹے کا لفظ ادا ھورھا تھا جیسے چھوٹے بھائی کو بڑھے بھائی کہتے ھیں، مائیں سانجھی ھوتی ھیں، یہ بس وھی جانتے ھیں جن کی مائیں اللہ پاس چلی جاتی ھیں، باقیوں کو سمجھانا ممکن نہیں، پھر کوئی میرا مہمان آیا اور میں تشنگی میں ھی وھاں سے اٹھ آیا، کمرے میں بیٹھ آنکھوں کو بھیگنے سے بچاتا رھا پر انکا کوئی آن آف کا بٹن تو ھوتا نہیں، کل میرا بہت دل تھا کہ عمران مان سے ملنے جاوں دفتر سے ورک فرام ھوم کا حکم تھا، گھر پر ھی تھا تو واصف علی واصف صاحب یاد آگیا، جب پوچھا گیا کہ کیا جب ھم کسی کو یاد کرتے ھیں تو کیا وہ بھی ھمیں یاد کرتا ھے تو انکا جواب تھا اصل میں وھی ھمیں یاد کررھے ھوتے ھیں، ساتھ ھی عمران بھائی کا فون آنا شروع ھوگیا بھائی ڈسٹرب تو نہیں کیا، نہیں بیٹے آپ ھروقت فون کرسکتے ھیں گھر آسکتے ھیں، جی بس ایسے ھی آپ سے بات کرنے کو دل کررھا تھا جی میرے دل کی بھی یہی صورتحال ھے، شاید لوگوں کو اندازہ نہیں کہ دنیا کے تمام یتیم اور مسکین آپس میں رشتے دار ھوتے ھیں، اور انکے دکھ بھی سانجھے ھوتے ھیں، امین اقبال میرا دوست ھونے کے ساتھ ساتھ اب رشتہ دار بھی ھے کیونکہ وہ بھی میری طرح یتیم اور مسکین ھے، امین بھائی معافی چاہتا ھوں ، درگزر کردیجئے گا، شکریہ عزیر احمد میرے دوست کچھ دن بعد واپس آنا ابھی حوصلہ نہیں ھے ملنے کا، اللہ تعالٰی جنکے والدین وفات پاگئے ھیں انکی اگلی منزلیں آسان بنائیں آمین، جن کے والدین حیات ھیں ایک یا دونوں اللہ تعالٰی آپ کو انکی خدمت کا موقع عطا فرمائیں آمین، ایک درخواست ھے والدین سے ھمیشہ نرم لہجے میں بات کریں، کبھی انکو ناراض مت کریں اور نہ انسے ناراض ھوں، اللہ تعالٰی جزائے خیر عطا فرمائیں آمین، دعاوں کی درخواست ھے۔
azhar
December 30, 2020
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020