چور اور چوکیدار
چور اور چوکیدار
تحریر محمد اظہر حفیظ
پہلے دور اچھا تھا چور بھی اچھے تھے اور چوکیدار بھی اچھے تھے۔ سارے گاوں میں ایک چوکیدار اور کئی چور ۔ نہ چوکیدارا ٹھیک طرح سے ھوتا تھا اور نہ ھی چوری۔ چھوٹی موٹی چوریاں ھوتی تھیں کسی کا دل چوری ھوجاتا تھا اور کسی کے خواب،
چوکیدار بھی اپنے ھی ھوتے تھے کبھی ماں کبھی بہن، کبھی بھائی اور کبھی باپ۔ پر چور کون سے پرائے ھوتے تھے۔ کچھ اپنے ھوتے تھے اور کچھ اپنے ھو جاتے تھے۔ بس یہی چور اور چوکیدار کا فرق تھا۔
پھر وقت بدلا اور کئی تبدیلیاں رونما ھونا شروع ھوگئیں۔ رہبر ھی رھزن ھوگئےاور رھزن ھی رھبر۔
کچھ فرق نہیں رھا۔ سوچ، الفاظ سب پر ھی تو پہرہ لگ گیا۔ اگر کسی کے حق میں کہو تو زندہ باد اور مخالفت میں کہہ دو تو کافر۔ کسی سے محبت کا اظہار گناہ بن گیا اور کسی سے نفرت کا اظہار بھی گناہ بن گیا۔ نیکی اور بدی کا فرق ختم ھوگیا۔ ھوسکتا ھے جو آپ نیکی سمجھ کر کر رھے ھوں کوئی اس کو بدی سمجھ رھا ھو۔ سب ایک دوسرے سے دور ھونے لگے۔ کسی کو کسی کا حال پتہ نہیں۔ سب ساتھ ساتھ تنہا کھڑے ھیں۔اور تو اور اب تو سائے بھی کم ھی نظر آتے ھیں تنہائی کا عجیب منظر ھے۔ پھر ایک وقت آیا ۔ جو آیا تو گلوبل ویلج بنانے تھا پر سب کو دور دور کرگیا۔ میرے سامنے بیٹھا میرا پیارا مجھ سے بات نہیں کر رھا پر امریکہ اور انگلینڈ میں بیک وقت کئی لوگوں سے ھمکلام ھے۔ میں پاس لیٹا درد سے کراہ رھا ھوں اور وہ موبائل میں مگن مسکرا رھا ھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرھی کہ یہ بے حسی کا گلوبل ویلج بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ پھر شروع ھوگئی ففتھ جنریشن وار۔ اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا بس گالم گلوچ کانام ھی شاید ففتھ جنریشن وار ھے۔ شاید پانچویں جماعت پاس لوگ جن کو پاکستان میں پڑھا لکھا گردانہ جاتا ھے یہ وار انہی کے لڑنے کیلئے بنی ھے اسی لئے اس کا نام ففتھ جنریشن وار ھے۔ فقیر سے لیکر وزیر تک سب موبائل کان کو لگائے مصروف ھیں۔ جو کمی رہ گئی تھی۔ اس کو کرونا میں آن لائن کلاسز نے مکمل کردیا۔ اب ساری دنیا ھی شاید اس جنگ میں مگن ھے۔ اور اس سے جو پیداوار حاصل ھوگی وہ بھی ویسی ھی ھوگی جیسی کہ ھیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نسل آئی تھی۔ جب بھی جنگ لگتی ھے تو آبادیاں اور نئی نسل تباہ وبرباد ھوجاتی ھے ۔ اگر سارا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا دیکھا جائے تو یہ کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ جو میں ایک خوفناک تبدیلی دیکھ رھا ھوں کہ ھماری اگلی نسل سوال کرنے سے پہلے جواب دے دیتی ھے۔ جیسے اسے سوال پہلے سے معلوم ھو۔ ھمارے چور اب بہت تیز طرار ھوگئے ھیں اور چوکیدار کمزور اور ناتواں۔
پہلے کسان کا پانی چوری ھوجاتا تھا تو قیامت برپا ھوجاتی تھی جرگے اور کچہریاں لگ جاتی تھیں۔ اب اس کی فصل چوری ھوجائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سب کی مجبوریاں ھیں ماسوائے آپ کے۔
سب کے دکھ سنیں پر اپنا نہ کسی کو سنائیں اسی میں آپ کی بہتری ھے۔ کیونکہ لوگ تو اب دکھ سن کر دکھ بھی چوری کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پہلے پہل صرف خوشیاں چوری ھوتی تھیں پر اب تو ظالم دکھ بھی نہیں چھوڑتے۔
مجھے کسی نے پوچھا کیا کرتے ھو جواب دیا کہ فارغ ھی رھتا ھوں ظالم میری فراغت ھی چوری کرکے لے گیا اور میں مصروف ھوگیا اب میرے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں۔
سارا دن ویلا مصروف گھر میں پڑا رھتا ھوں ۔ بیٹیوں سے کہنے ھی لگا تھا یار کچھ وقت مجھے بھی عنایت کردیں ۔ اس سے پہلے جواب آگیا ھمارے ساتھ ھی یونیورسٹی اور کالج سکو ل چلا کریں۔ تاکہ پتہ چلے پڑھائی کتنی مشکل ھے۔ ان کو کیسے بتاؤں دنیا کا سب سے آسان کام پڑھائی ھی ھے۔ باقی زندگی تو ففتھ جنریشن وار ھے۔ جو زیادہ گالیاں دے وھی جیت جاتا ھے۔ چاھے وہ چور ھو یا چوکیدار
azhar
November 29, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020