گٹھلی
گٹھلی
تحریر محمد اظہر حفیظ
میں ملتان میں نہر کے کنارے پر بیٹھا گرمیوں کے موسم میں، ملتان کی گرمی اور نہر کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ھورھا تھا کہ نہر میں بہتا ھوا ایک آم آگیا، میں نے اس کو پکڑ لیا دائیں بائیں دیکھا دور دور تک کوئی اس کا مالک نظر نہیں آیا اور نہ ھی کوئی درخت، اس کو لاوارث چھوڑنے کی بجائے میں نے اس کو کھانے کا پروگرام بنایا، بہت لذیذ آم تھا اس کے چھلکے اور گٹھلی کو نہر کے ایک طرف پھینک دیا، چند دن بعد جو وھاں سے گزر ھوا تو بہت حیرانی ھوئی وہ گٹھلی ایک چھوٹے سے پودے کی شکل اختیار کر چکی تھی میں بھی آتے جاتے نہر سے شاپر بھر اس کو پانی لگا جاتا، چند سال کیا گزرے وہ ایک تناور آم کا درخت بن گیا، مجھے بھی اس سے محبت سی ھوگئی تھی آتے جاتے اس کے سائے میں بیٹھ جانا، گرمیوں میں اس کے پھل سے سب ھی لطف اندوز ھوتے اور میں بھی، وہ رب کی زمین پر ایک آم کا پودا تھا، مجھے دعائیں دیتا مجھ سے اکثر باتیں کرتا دیکھو آج ایک مسافر میرے نیچے کافی دیر سویا رھا بہت ایماندار تھا میرا پھل توڑنے کی کوشش نہیں کی، کل تو حد ھی ھوگئی ایک نوجواں جوڑا آکر میرے سائے میں بیٹھ گیا اور محبت بھری باتیں کرتا رھا ، مجھے بہت اچھا لگ رھا تھا، میں بھی ان کے قول و قرار سن کر جھوم رھا تھا انکو ٹھنڈی ھوا دے رھا تھا وہ تمھیں بھی دعائیں دے رھے تھے کہ اللہ بھلا کرے اس نیک انسان کا جس نے اس ویرانے میں پھل دار درخت لگایا، لڑکا گنگنا رھا تھا، بہارو پھول برساو کہ میرا محبوب آیا ھے اور میں بھی خوشبودار آم کے پھول ان پر برسا رھا تھا، پھر میں یکدم ڈر کے سہم گیا کیونکہ لڑکے نے اپنی جیب سے ایک تیزدھار چاقو نکال لیا، میں نے اللہ کی عبادت شروع کردی کہ پتہ نہیں یہ بچے کیا کر گزریں پر شکر رب باری تعالٰی کا انھوں نے اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچایا وہ باتیں کر رھے تھے کہ ھم آج اپنے پیار کی نشانی چھوڑ کر جائیں گے جو رھتی دنیا تک قائم رھے اور پھر لڑکے نے چاقو سے مجھے زخمی کرنا شروع کردیا اور مجھ پر کچھ لکھ رھا تھا دو نام تھے اور ان کے درمیان دل کا نشان تھا میرے تو آنسو ھی نکل آئے پھر وہ ھاتھوں میں ھاتھ ڈالے باتیں کرتےچلے گئے، تم دیکھو تو ذرا کیا لکھ کر گئے، میں کیا بتاتا بس مسکرا کر رہ گیا، پھر ایک دن گیا تو آم پر ایک جوتا اٹکا ھوا تھا ھنستے ھوئے پوچھا یہ کون نظر وٹو باندھ گیا، آم کہنے لگا کل کچھ شرارتی بچے آئے تھے، درخت پر چڑھنا نہیں آتا تھا تو پتھر مار مار کر میرا پھل توڑ رھے تھے مجھے پتھر لگ رھے تھے تکلیف بھی ھورھی تھی پر میں پھر بھی ان کیلئے پھل نیچے گرا رھا تھا، کہ اچانک ایک نے اپنا جوتا زور سے مارا اور وہ میری ایک ٹہنی میں آکر پھنس گیا، پھر انھوں نے مجھے بہت پتھر مارے پھل کیلئے نہیں بلکہ جوتا اتارنے کیلئے، مجھے تو لہو لہان کردیا میری پیشانی پر اور کندھوں پر زخم آئے، پر مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔ مجھے تکلیف اس وقت ھوئی جب اس بچے کو شدید گرمی میں ننگے پاوں جاتے دیکھا اسکے پاوں جل رھے تھے وہ رو رھا تھا میرے بس میں نہیں تھا کہ میں اس کے ساتھ ساتھ سایہ کرتے چلتا، یا اس کا جوتا واپس کردیتا، تم یہاں ایک بورڈ لکھ کر لگاو کہ جو بھی میرا پھل کھائیں میری گٹھلیاں ایک خاص فاصلے پر دباتے جایا کریں تاکہ میں باغ بن جاوں اور اللہ کی مخلوق کے کام آوں، مجھ سے انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندے بھی بہت مستفید ھوتے ھیں مجھ پر بیٹھتے ھیں میرا پھل کھاتے ھیں اللہ کی عبادت کرتے ھیں شکر بجا لاتے ھیں اور اڑ جاتے ھیں میری صبح سب سے پہلی ملاقات انہی سے ھوتی ھے، کچھ عرصہ میں کاموں میں مصروف رھا ایک دن دل کچھ بوجھل تھا سوچا اپنے دوست سے ملنے جاتا ھوں، وھاں گیا تو نہر میں پانی کچھ زیادہ محسوس ھورھا تھا اور مجھے آم کا درخت نظر نہیں آرھا تھا، جب قریب جا کر دیکھا تو آم کٹا پڑا تھا، خشک ھوگیا تھا، مجھے دیکھتے ھی اور زور سے رونے لگا دیکھو دوست انسان کتنا احسان فراموش ھے ایک دن میرے نیچے ایک بزرگ بیٹھے تھے اور اپنے ساتھ والے کوبتارھے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ھے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو، میں اس کی عملی مثال ھوں۔ دوست ھوا کیا ھے، میں بہت شرمسار ھوں بہت عرصے بعد آیا اور تمھارے ساتھ یہ حادثہ ھوگیا، تمھیں یاد ھے نہ ایک محبت کرنے والے جوڑے کا تمھیں بتایا تھا جو دل کے ساتھ اپنے نام مجھ پر لکھ کر گئے تھے، کچھ دن پہلے وہ لڑکا کچھ لوگوں کے ساتھ آیا میرے تنے کو دیکھ کر مسکرایا اور اپنے لوگوں کو کہنے لگا اس درخت کو کاٹ دو یہ ھماری ھاوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ بنانے میں رکاوٹ بن رھا ھے، تو ایک صاحب بولے سر اس پر تو شاید آپکا نام اور کسی کا نام بھی دل کے ساتھ لکھا ھے، جی اب ھم اپنے نام کی ھاوسنگ سوسائٹی بنانے جارھے ھیں درخت کی کیا حثیت، درخت تو موسمی ھوتے ھیں اور ھاوسنگ سوسائٹی تاقیامت رھے گی ، میرے دوست ایک بات یاد رکھنا جو اپنے پاس تیز دھار آلے رکھتے ھیں وہ انھوں نے استعمال ھی کرنے ھوتے ھیں کبھی نفرت میں اور کبھی محبت میں وقت وقت کی بات ھے ، کبھی وہ رھبر ھوتے ھیں اور کبھی رھزن تم ان سے محتاط رھنا۔ اب کی بار جو آم کھاو اور گٹھلی اتنی دور پھیکنا جہاں کبھی ھاوسنگ سوسائٹی بنانے کا سوچ بھی نہ سکے کیونکہ میں تو ابھی اور خدمت کرنا چاھتا تھا پھل اور سائے کی صورت میں پر مجھے قتل کردیا گیا، لیکن میری آنے والی نسلیں اس قتل و غارت سے محفوظ رہ سکیں، مجھ سے وعدہ کرو انہیں انسانی آبادی سے دور رکھنا ، یا پھر آم نہ کھانا۔
azhar
May 26, 2021
Blogs
Comments are closed.
Copyright 2020