آو میری آنکھوں سے دیکھو

 

آو میری آنکھوں سے دیکھو
تحریر محمد اظہر حفیظ

آو کہ میں تمھیں دیکھنا سکھاوں ،کس کو کیسے دیکھتے ھیں، پرندے کیسے دیکھتے ھیں، کیڑے کیسے دیکھتے ھیں اور انسان کیسے دیکھتے ھیں، کجھور کا درخت ھے ، کیڑا اسکی بلندی کو دیکھتا ھے اور سوچتا ھے اتنی زیادہ اونچائی تک جاتے جاتے تھک جاؤں گا، بہتر ھے جب اس کا پھل پک کر تیار ھوگا تو کھا لیں گے، انسان کچھ اس طرح دیکھتا ھے کہ جھوٹے یار دی یاری، یاری وانگ کھجور دھپ لگے چھاں کوئی نہ بھک لگے پھل دور، اور جب پرندہ اس کو فضا سے دیکھتا ھے تو وہ سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھتا ھے کہ اللہ کی شان ھے یہ کیسا درخت ھے جو اوپر سے بلکل سبز رنگ کا پھول نظر آتا ھے اور جب اس کو پھل لگتا ھے تو پیلے رنگ کا پھل اور سبز رنگ کا درخت اور بھی پیارا لگتا ھے، ھر ایک کے دیکھنے کے طریقے ھیں ، پر میں تو ھر نظارے کو تین طرح سے دیکھتا ھوں زمین پر لیٹ کر کہ کیڑے کیسے دیکھتے ھیں، زمین پر کھڑے ھوکر کہ انسان کیسے دیکھتے ھیں اور بذریعہ ڈرون دیکھتا ھوں پرندے کیسے دیکھتے ھیں، میرے اندر ایک دیہاتی بچہ رھتا ھے، جو ھر تصویر خود بنا کر دیکھنا چاھتا ھے، وہ کتابوں میں چھپی تصویروں پر یقین نہیں رکھتا ، وہ نانگا پربت کے سامنے کھڑے ھوکر اس سے باتیں کرتا ھے اور راکا پوشی کھڑکی کے سامنے رکھ کر سوتا ھے، کچھ لوگ مجھ جیسے دیہاتی لوگوں کو ڈرانے پر لگے ھوئے ھیں کہ جی یہ نانگا پربت تو ایک کلر پہاڑ ھے، کے ٹو بیس کیمپ تک ٹھیک ھے، مجھے کے ٹو سگریٹ کی ڈبی پر بنی کے ٹو کی تصویر بلکل پسند نہیں ھے مجھے تو وہی کے ٹو دیکھنا ھے جہاں علی سدپارہ رھتا ھے، جب میں سیاچین گیا تو مجھے بتایا گیا کہ راستہ بھولنے والوں کی شہداء راھنمائی کرتے ھیں کہ اس طرف چلے جائیں آپ کو پوسٹ مل جائے گی، میں چاھتا ھوں کہ میں کے ٹو سر کرنے جاوں اور راستہ بھول جاوں مجھے علی سدپارہ صاحب راستہ بتانے آئیں اور میں انکی زبانی وہ سارا منظر نامہ سنوں کیا اور کیسے ھوا تھا، ھوا کی رفتار کیا تھی پہلے کون کدھر کو گیا تھا، میں انکی آنکھوں سے یہ سب دیکھ کر آپ سب کو دکھانا چاھتا ھوں، مجھے بہت سفر کرنا ھے اور آپ کو پاکستان کی سب جھیلیں اور چوٹیاں دکھانی ھیں، میں لے چلوں گا آپ کو ھرن مینار اور دکھاوں گا تین زاویوں سے ھرن مینار کوکیسے دیکھتے ھیں، ھرن مینار کو بقول ھمارے دوست علی حسن بخاری صاحب چار زاویوں سے دیکھا جا سکتا ھے، کیونکہ وھاں جنات بھی تو رھتے ھیں، تو وہ کیسے دیکھتے ھیں ھرن مینار کو یا پھر وہ صرف وھاں رھائش پذیر ھیں اور ھم جیسوں کو آتے جاتے ھی دیکھتے ھیں، گھر کی مرغی دال برابر، جس طرح اکثر رہائشی اپنے گھر کو مکمل طور پر نہیں دیکھ پاتے اسی طرح انھوں نے بھی ھرن مینار کو نہ دیکھا ھو، جب فضا سے ھرن مینار کو دیکھتے ھیں تو پینٹاگون پاکستان میں نظر آتا ھے اور اس کے چاروں اطراف میں چکور پانی کے تالاب ھیں، اگر انسانی آنکھ سے دیکھنا چاھتے ھیں تو بہتر ھے وھاں موجود مینار یا برجیوں میں سے دیکھیں بہت دلفریب مناظر نظر آئیں گے، سورج کا غروب ھونا اس کا بہت حسین ھے، کیڑے کی آنکھ کی نسبت اگر آپ سانپ کی آنکھ سے یا مچھلی کی آنکھ سے اس مینار کو دیکھیں تو فش آئی کا مزا لے سکیں گے کیونکہ ان تالابوں میں مچھلی اور سانپ کثرت سے پائے جاتے ھیں، مجھے دریائے سندھ بھی مختلف جگہوں سے دیکھنے کا اتفاق ھوا،سکھر بیراج پر فضائی مناظر بھی دیکھے اور انسان کی آنکھ سے بھی مناظر دیکھے لیکن دل اس وقت بہت تکلیف میں چلا گیا جب میں نے ڈولفن کی آنکھ سے سکھر بیراج کو دیکھنے کی کوشش کی منظر کالا سیاہ تھا تب احساس ھوا یہ تو سب اندھی ھیں اسی لئے ان کو بلائینڈ ڈولفن کہا جاتا ھے، میرے ساتھ ساتھ رھیئے، میں آپ کو مختلف آنکھوں سے دنیا دکھاتا رھوں گا، اور یہ ایک دیہاتی بچہ ھی ھوتا ھے جو بار بار ایک ھی فلم کو دیکھتا ھے اور نئے دیکھنے والوں کو سب سین پہلے سے بتا کر اپنے کامل عالم ھونے کی داد چاھتا ھے،

Prev فوٹو گرافر
Next چل فر

Comments are closed.