اسلام آباد

اسلام آباد

تحریر محمد اظہر حفیظ

چالیس سال ھوگئے اس شہر میں آئے، اس کا کونہ کونہ دیکھ چھوڑا نہ اس میں کبھی اسلام نظر آیا اور نہ ھی کبھی یہ آباد نظر آیا، اگر اسلام کی بات کریں تو مساجد کو کمانڈوز سے خالی کروانا پڑتا ھے اور پھر خود کش حملے شروع، مساجد کا بہترین استعمال بھی یہیں پر دیکھا اکثر نکاح اب فیصل مسجد میں ھوتے ھیں مقصد شاید ھی سنت کو زندہ کرنا ھوتا ھو، لیکن فوٹو شوٹ کی اجازت مل جاتی ھے، اور پھر قربت بھرے پوز اس مسجد کے اندر فلمائے اور فوٹوگراف کئے جاتے ھیں، جن دنوں میں شہر آباد ھوتے ھیں الحمدللہ اسلام آباد ویران ھوتا ھے وہ عید ھو الیکشن ھو یا کوئی اور خوشی غمی کی تقریب، کرونا تو اچھا آیا اس شہر میں کم از کم مرنے والے کو چار لوگ تو نصیب ھوجاتے ھیں بے شک وہ گھسیٹ کر ھی قبر میں اتارتے ھیں، میری کوشش ھوتی ھے ھر جنازے میں جایا جائے خاص طور پر جو اسلام آباد کے قبرستانوں کی اپنی جناز گاھوں میں ھوتے ھیں، کیونکہ کئی دفعہ تو چار کندھے بھی موجود نہیں ھوتے، جو جنازہ اٹھایا مجھے یاد ھے جب کسی دوست کا فون آیا، بھائی کچھ دوستوں کو لیکر ایچ الیون قبرستان آجائیں میت کے ساتھ میں اکیلا ھوں جنازہ کیسے اٹھاوں گا اور دفناوں گا کیسے، بہت تلخ تجربے ھیں اس شہر کے ساتھ، مالک سب ھی ھیں، دفتری سے لیکر وزیراعظم تک، سپاہی سے آرمی چیف تک، وکیل سے چیف جسٹس تک، پر مقامی کوئی بھی نہیں ھے، سب ھی دوسرے شہروں سے اس کے مالک بننے آئے ھیں اور ضروریات زندگی کماتے ھیں اور واپس اپنے شہر اور گاوں کو چلے جاتے ھیں، ھسپتال، تھانہ، کچہری، سکول، کالج اور تمام دفاتر جہاں بھی چلے جاو، بس یہی سوال ھوتا ھے آپکا تعلق کس علاقے سے ھے شاید اسلام آباد کو زیادہ تر لوگ تو علاقہ بھی نہیں سمجھتے، اسلام آباد کا پکا رہائشی کوئی مشکل سے ھی بن پاتا ھے، اگر کوئی کوشش کرے تو کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ھر ممکن کوشش کرتی ھے کہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کرے، یہاں پر ھر کھانے پینے کی چیز دوسرے شہروں سے آتی ھے خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں بھی دوسرے شہر کے ھی ھوتے ھیں، بس یہاں کا نالہ لئی ایک مقامی باشندہ ھے جو ھر سال جولائی میں اپنا مقامی ھونے کا ثبوت دیتا ھے، اور ھر طرف تباہی مچادیتا ھے، فرزند راولپنڈی بھی امپورٹڈ ھے اور ھر الیکشن پر نالہ لئی کے کنارے سڑک بنانے کے جھوٹے خواب اور صفائی کے وعدے کرتا ھے، اور پھر نیا الیکشن آجاتا ھے، پھر نئی پارٹی پر وعدے وھی پرانے، ھر چیئرمین کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی جب آتا ھے آتے ھی فٹ پاتھ، اور چوک بنوانا شروع کردیتا ھے، شاید اسلام آباد کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ھے، اسلام آباد کے تھانوں میں ایف آئی آر اتنی مشکل سے ھی ھوتی ھے جتنی دور دراز کے کسی گاوں میں، سفارش رشوت ھر محکمے میں ضروری ھے، وہ چاھے ون ونڈو محکمہ ھو یا ونڈوز سے چلتا ھو، ڈاکو، چور، رشوت خور یہاں عام ھیں، کہوٹہ روڈ کو آج تک کوئی ادارہ ڈاکوؤں سے پاک نہیں کرسکا، پانی یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ھے، اور روز نئی نئی ھاوسنگ سوسائٹیوں کو اجازت دی جارھی ھے، ایئرپورٹ والا علاقہ ریتلا ھے اور زیر زمین پانی بہت کم ھے سینکڑوں ھاوسنگ سوسائٹیز بن رھی ھیں انکو پانی کہاں سے میسر ھوگا، کون سوچے گا کون اس پر کام کرے گا، کوئی تو ادارہ ھو، جو اس پر کام کرے، کیا کسی ھاوسنگ سوسائٹی سے پوچھا جاتا ھے کہ پانی کا انتظام کیا ھوگا، کیونکہ مقامی ڈیم تو ایئرپورٹ کیلئے مختص ھیں، قانون ایک ھونا چاھیئے یہ کون لوگ ھیں جن کی گاڑیوں کے شیشے کالے ھیں اور عوام کو اجازت نہیں ھے، اتنے خاص لوگ کہاں سے لائے جاتے ھیں، کون بتائے گا، اس شہر کو اگر تجرباتی طور پر محفوظ بنایا جائے تو بہت سے پیسے کی بچت کی جاسکتی ھے، یہ جو گاڑیوں کے پیچھے حفاظتی گاڑیاں یہ تو کم از کم کم ھوجائیں گی اور شاید اس شہر کو محفوظ بنانے پر اتنا خرچ نہیں ھوگا جتنا ھم چند فضول لوگوں کو محفوظ بنانے پر لگا دیتے ھیں، نئے وزیراعظم جن کا تعلق میانوالی سے ھے پڑھے لاھور میں ھیں، جوانی مغرب میں گزاری اور پھر بڑھاپے میں اسلام آباد میں گھر بنا لیا، وہ دنیا کے واحد شخص ھیں جن کو سب پتہ ھے، انکا دعوی ھے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے، حالانکہ انکا اپنا گھر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر سے کئی ھزار گنا بڑا ھے، ان سے درخواست ھے اگر وہ اسلام آباد کو ھی اسلام آباد بنادیں تو کافی ھوگا، جس میں اسلام بھی ھو اور وہ آباد بھی ھو، یہی بہت بڑی کاوش ھوگی، جزاک اللہ خیر، بے شک بناتے وقت تصویر ضرور بنوا لیں۔ شکریہ

Prev جب ھم بہادر ھوئے
Next بجٹ

Comments are closed.