اور بھی تھے راستے

اور بھی تھے راستے
تحریر محمد اظہر حفیظ

جب بچے سات سے آٹھ ماہ کے ھوتے ھیں تو ان کو واکر میں ڈال کر چلنا سکھایا جاتا ھے ان کی ٹانگوں اور گھٹنوں کی مضبوطی بڑھتی ھے، وہ بیلنس کرنا سیکھ جاتے ھیں۔ چلنا شروع کرتے ھیں، اور واکر کو بھگائی پھرتے ھیں۔ گھر میں میرا کمرہ نیچے ھے میرا بھائی اور امی ابو کا کمرہ اوپر والی منزل پر ھے میری دوسری بیٹی فاطمہ ھمیشہ امی جی پاس ھی رھتی تھی، سیڑھیوں کے ساتھ امی جی کی نماز والی چوکی ھوتی تھی، امی جی جب نماز پڑھنے لگتیں تو فاطمہ کی واکر کو ایک چھوٹی سی رسی سے باندھ کر گرل سے باندھ دیتیں ، تاکہ وہ چلتی پھرتی بھی رھے اور سیڑھیوں تک نہ جائے، اور سیڑھیوں سے گر کر چوٹ لگوانے سے بھی بچی رھے، نماز کے بعد وہ اس رسی کو دراز کردیتیں تھی جب وہ سیڑھیوں کی طرف جاتی امی جی رسی کھینچ کر نزدیک کر لیتیں، ھم فاطمہ اور امی جی کے پیار اور کیئر کو دیکھتے، امی جی کہتیں تھیں یہ میری بیٹی ھے اور فاطمہ اس کے ناجائز فائدے بھی اٹھاتی رھتی تھی جب تک امی ابو زندہ تھے جب بھی اس سے ناراض ھوتے اس کی کسی غلطی پر تو وہ امی ابو کو بتا کر صلح کروا لیتی، ابو جی کہتے یار صاحب بیٹیوں سے کون ناراض ھوتا ھے چل معاف کردے اور خود بھی رونے لگ جاتے میں بھی فورا دونوں کو گلے لگا لیتا، ھم کافی دنوں سے لاک ڈاون میں بند تھے، حکومت نے رسی سے باندھا ھوا تھا یہ ھم سے محبت تھی جو ریاست کی بطور ماں ذمہ داری ھوتی ھے وہ ھمیں گرنے سے بچاتی رھی۔ پھر بچے شور کرتے تھے حکومت رسی کچھ دراز کردیتی تھی، بہت باتیں ھوئیں، الزامات لگے پر حکومت ھماری محبت میں اپنے فیصلوں پر قائم رھی، اربوں روپے مستحقین میں تقسیم کیئے گئے، راشن تقسیم کئے گئے،آج بروز ھفتہ حکومت عوام اور کچھ عقل کے اندھوں کے حکم کی تعمیل میں لاک ڈاون نرم کرنے جارھی ھے، ھم میں سے اکثر بچے ھیں جن کے سیڑھیوں سے گرنے کے بہت زیادہ چانسز ھیں اور زخمی ھونے کے علاوہ جان سے بھی جاسکتے ھیں، ڈر ھے ھسپتال کم ھیں اور زخمی زیادہ نہ ھوجائیں، بہتر تھا گورنمنٹ سب کو رسی سے باندھ کر رکھتی اور گھروں میں رکھتی، اسی میں زندگی اور صحت ھے، بازار آج صبح بروز ھفتہ کھلیں گے اور اس کی تیاریاں جمعہ والے دن سے شروع ھوگئیں ھیں، ایک پرانا لطیفہ ھے دو دوستوں کو ایک جگہ پڑے ھوئے دو ھینڈ گرنیڈ مل گئے وہ ایک دوسرے کو کیچ کیچ کراتے تھانے کی طرف جمع کرانے جارھے تھے ایک بولا یار اگر بم گر کر پھٹ گیا تو، دوسرا سیانا بولا کوئی بات نہیں ھم پولیس کو کہیں گے کہ ایک ھی ملا تھا۔
عوام معاملے کی نزاکت نہیں سمجھ رھی اور ھمارے وزیراعظم بھی انکی باتوں میں آکر ایک مختلف فیصلہ کرنے جارھے ھیں۔ شاید کل کو وہ کہیں کون کہتا تھا پاکستان کی آبادی بڑھ رھی ھے ھم نے وزارت سائینس کی مدد سے اس کو کنٹرول کر لیا ھے۔سب ممالک نے کرونا کے فوائد حاصل کئے ھیں اور ھم نے بھی قرض لینے کے ساتھ ساتھ اپنی آبادی کو بھی کنٹرول کر لیا ھے۔
کچھ لوگوں کا خیال ھے کہ ھم اگلی کچھ دن میں حفاظتی ماسک، یونیفارم، وینٹیلیٹر بنانے میں خود کفیل ھوجائیں گے اور اس کی تعداد بھی بتا رھے ھیں، پر دوسری طرف اس لاک ڈاون کے ھٹانے سے جو مریض بڑھیں گے اسکا کوئی اندازہ نہیں کر رھا۔ کیا وہ بھی ھماری پروڈکشن کی مقدار سے ھی بڑھیں گے یا انکی تعداد مختلف بھی ھوسکتی ھے۔
ایک بادشاہ کو کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا بہت شوق تھا۔ کسی نے ان سے ایک دفعہ ھمت کرکے پوچھا اگر جان کی امان پاوں تو ایک سوال کرنے کی جسارت کروں، بعد از اجازت انھوں نے سوال کیا۔ کیا آپ کو بھی کبھی کسی پررحم آیا ھے جناب عالی۔ تو انہوں نے کمال فراخ دلی سے بیان فرمایا کہ ایک دن صبح کے وقت نہر کنارے میں گھڑ سواری کر رھا تھا کیا دیکھتا ھوں ،ایک ماں شور مچارھی ھے کہ ھائے میرا بچہ نہر میں گر گیا ھائے میرا بچہ نہر میں گر گیا، کیا دیکھا بچہ غوطے کھارھا ھے، مجھے بہت رحم آیا اور میں نے نیزہ مار کر اس بچے کو نہر سے نکالا اور اس کی لاش اس کی ماں کے حوالے کردی،اس کے علاوہ مجھے اپنی زندگی میں رحم دلی کی کوئی بات یاد نہیں پڑتی،
موت کے اور بھی تھے راستے افسوس ھم نے کون سے چننے۔

Prev ھائے امی جی
Next وقت

Comments are closed.