اہم ہونے کا وہم

اہم ہونے کا وہم

تحریر محمد اظہر حفیظ

اہم ہونے کا وہم بھی اپنی ذات سے دھوکے کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں۔

ہر کام کو اپنی ذمہ داری سمجھنا اور کر کے سونے کا عہد بھی بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

بہت سے کام جو میرا خیال تھا کہ میرے بغیرکیسے ممکن ہونگے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کی نوکری، مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر، فوٹوگرافی اور میری تحریریں۔

سب کچھ بہت اہم تھا۔ میں روزانہ واٹس ایپ پر سٹیٹس لگانا، تحریر لکھ کر بھیجنا، تصاویر شیئر کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ اس ذمہ داری کو مکمل کرنےکے لئے میں کئی سال سے چھ گھنٹے نہیں سویا تھا۔

ہر وقت حالت سفر میں رہنا یا حالت جنگ میں رہنا میری عادت بن چکی تھی۔

زندگی کوہر مشکل طریقے سے آزمایا۔ بیس سال سے شوگر میری ہم راہی تھی۔ میری ہم سفر تو تھی پر دشمن جاں بھی تو تھی۔

ہر وقت ہر چیز کی ذمہ داری میرا ہی فرض تھا۔

پچھلے چار ماہ سے تقریبا میں دفتر اور فوٹوگرافی سے چھٹی پر ہوں۔ علاج کے سلسلے میں پہلے اسلام آباد سے لاہور آتا تھا ساتھ بڑے بھائی، بیگم اور ڈونر بیٹی ہوتے تھے پھر ہم لاہور کچھ ہفتوں کیلئے بہن کے گھر شفٹ ہوگئے تقریبا چار ہفتے ہوچکے ہیں ، شاید مزید چار ہفتے لاہور رہنا پڑے ، دعاوں کی درخواست ہے۔

میرے اہم ہونے کے سب وہم نکل چکے ہیں۔ یار تیرا بڑا جگرا ہے جو اتنے کام ایک ساتھ کرتا ہے

جگر جسم سے نکل کر ایک مرتبان میں بند ہے اور مجھے میری عظیم بیٹی علیزے اظہر کا جگر لگ چکا ہے۔ پہلا جگر میں نے ہر طرح آزما کر دیکھ لیا اب نیا جگر دھیان سے استعمال کروں گا۔

چار ہفتے سے موبائل فون ، سوشل میڈیا ، فوٹوگرافی کے پاس سے بھی نہیں گزرا پر سب کچھ اسی طرح چل رہا ہے، اور میں لوگوں کی دعاوں کے علاوہ کہیں بھی تو نہیں ہوں۔ میری رائے میں دعاوں میں رہنا سوشل میڈیا پر رہنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔

میری تین بیٹیاں ، بھائی کی بیٹی اور بھابھی اسلام آباد ہیں اور اور ہم چار لوگ لاہور میں ۔ سب ویسے کا ویسا چل رہا ہے۔ ہم دو میں اور میری بیٹی بیڈ پر ہیں اور دو ہمارے تیماردار ہیں ۔

باجی امتیاز اور انکے بچے ہم سب کی ایسے خدمت کرتے ہیں جیسے کہ ہم کوئی مرشد ہوں ۔

باجی امتیاز، وسیم احمد بھائی ، نیر باجی ، بیٹی انا، بیٹا زین ہمارے گرد ایک حفاظتی دیوار بنائے ہوئے ہیں ۔ اس میں سے گزر کر وہ کسی کو بھی ہم تک پہنچنے نہیں دیتے۔

ہم میں سے کسی کو کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ہر چیز وقت پر سامنے موجود ہوتی ہے۔ جیسے کہ آپ بیمار نہیں ہیں بلکہ جنت میں ہیں۔ صبح ، دوپہر، شام رات کیا کھانا ہے کیا پینا ہے سارا گھر اسی انتظام میں لگا رہتا ہے۔ کوئی نعمت سوچتے بعد میں ہیں اور پہلے موجود ہوتی ہے۔ جگر ٹرانسپلانٹ کے بعد ہائی پروٹین خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ، جیسا کہ قیمہ، گوشت، دیسی مرغی، چکن قیمہ ،مچھلی، ڈرائی فروٹ کاجو، بادام، اخروٹ، انڈے کی سفیدی، پھل، اور بہت کچھ۔ سب وافر مقدار میں گھر پہنچانا وسیم بھائی کی ذمہ داری ہے اور اس کو پکانا اور کمروں تک پہنچانا باجی نیئر کی ذمہ داری ہے۔ ہر وقت دعاوں کیلئے مصلے پر رہنا باجی امتیاز کی ذمہ داری ہے ساتھ ساتھ امپورٹڈ شوگر فری بسکٹ، ٹافیاں ، چاکلیٹ بھی باجی اپنے بیگ سے ہروقت بھیجتی رہتی ہیں ، سیڑھیوں کے ساتھ والا باجی کا کمرہ ہے مجال ہے کوئی گزر کر میرے کمرے کی طرف آجائے۔ باجی نے تقریبا سارے ہی مارشل لاء دیکھے ہیں اور دبنگ بہن ہیں۔ وہ میری آئسولیشن کی نگرانی بھی خود کرتی ہیں۔ اور کسی کو مجھ تک نہیں آنے دیتیں۔ جب میں کمرے سے باہر واک کرتا ہوں تو دور سے باجی کو سلام کرتا ہوں اور دعاوں کے زیر سایہ واک کرتارہتا ہوں۔

ساری کائنات کا نظام بلکل ویسے ہی چل رہا ہے۔ جیسے پہلے چل رہا تھا۔ مجھے گاڑی چلائے ہوئے بھی کئی ہفتے ہوگئے سفر بھی کرتا ہوں اور زندہ بھی ہوں الحمدللہ ۔

زندگی بہتر ہورہی ہے۔ سمجھ آرہی ہے۔ شاید ایک مختلف اور بہتر محمد اظہر حفیظ بننے کا عمل ہے جو تکمیل کی طرف گامزن ہے۔

شکر الحمدللہ

جگر ٹرانسپلانٹ بہترین ہوگیا ہے الحمدللہ میں اور میری بیٹی لاہور گھر شفٹ ہوچکے ہیں ۔ جلد مکمل صحتیاب ہوکر پھر زندگی کے چکر میں آجائیں گے پر شاید اس دفعہ زاویہ ذرا مختلف ہوگا۔ کیونکہ ہم اہم ہونے کے وہم سے نکل چکے ہیں۔

عام انسان کی زندگی اہم انسان کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔

میری بڑی کوشش تھی کہ گاوں والا محمد اظہر حفیظ مجھے دوبارہ مل جائے ، اسکی گمشدہ سادگی مل جائے سب واپس آگیا ہے اب اس کے ساتھ لیکر جینا ہے ۔ انشاء الله

میرے اللہ نے مجھے ترتیب میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا پیدا کیا الحمدللہ اس ترتیب کو حکم ربی سمجھتے ہوئے میں نے کبھی بڑا بننے کی کوشش ہی نہیں کی اور پہلے چھوٹا تھا اب عام ہوگیا ہوں۔ اب ایک خواہش ہے کہ باقی زندگی میں کچھ کام کرجاوں جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی ہو۔ سب احباب سے دعاوں کی درخواست ھے ۔ جزاک الله خیر

Prev میرے اپنے
Next سورۃ الرحمن

Comments are closed.