ایوارڈ

ایوارڈ
تحریر محمد اظہر حفیظ

میری زندگی اپنے ساتھ کم گزری زیادہ کیمرے کے ساتھ ھی گزر گئی۔ اور پھر اس نسبت سے مختلف انعام ملے ، شہرت ملی ، عزت ملی، اور گالیاں بھی سننے کو ملیں ۔ انکوائریاں بھی ھوئیں اور پابندیاں بھی لگیں۔ مجھے اندازہ ھوا کچھ نا کچھ کرنا پڑتا ھے تبھی کچھ حاصل ھوتا ھے۔ ھم نے آج تک بھیک مانگنے اور احتجاج کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ مجھے کوئی انسان کا بچہ یا شہنشاہ صحافت یہ بتادیں ٹوٹل ھم کتنی احتجاجی دستاویزات اقوام متحدہ کو لکھ چکے ھیں سلامتی کو نسل کو لکھ چکے ھیں اور کتنے آج تک احتجاج کرچکے ھیں۔ھر اخبار اپنا کشمیر ایڈیشن نکال کر اپنا حصہ اس میں ڈالتا ھے۔ کبھی سوچئے گا کہ اگر کشمیر آزاد ھوجائے تو کتنے اداروں کی روٹی بند ھوجائے گی اور اگر آزاد نہ ھوا تو ھمارا پانی بند ھوجائے گا۔
راجیو گاندھی 1991 میں چلا گیا لیکن وہ اپنی زندگی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے راج کیلئے جو کچھ کر سکتا تھا کر گیا،آج پوری دنیا ھے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر ھندوستانی لوگوں کا قبضہ ھے۔ ھندوستان کے کتنے پی ایچ ڈی ڈاکٹر ھیں جو ملک سے باھر ھیں اس ملک میں ھندوستان کے سفارتکار باقاعدہ طور پر ان سے رابطے میں رھتے ھیں اور انکو یاد کراتے رھتے ھیں کہ واپس ھندوستان جانا ھے اس پیکج سے زیادہ پر جو یہاں آپ کو آفر ھو۔ کتنے ممالک میں ھمارے سفارتکار ھیں جو ھمارے طلباء سے رابطے میں ھیں۔ یو اے ای جائیں انکے میڈیا سٹی کا دورہ کریں اور دیکھیں وھاں کتنے ھندوستانی ھیں اور وہ روز بروز بڑھتے ھی جا رھے ھیں ۔ اور پاکستانی کتنے ھیں۔
میری طرف سے بھی مودی پر اسکے دوستوں پر لعنت پر دھیان تو کریں کہ وہ ایسی کیا خدمات سر انجام دے رھا ھے جو دنیا اس کو ایوارڈ دے رھی ھے۔ ھم بھیک مانگتے ھیں ادھار مانگتے ھیں اور وہ ایک چائے والا گجرات کا قاتل ان کے ساتھ کاروباری منصوبوں کا آغاز کر رھا ھے۔ ھوش کے ناخن لیں کچھ ایسا کام کریں کہ دنیا آپ کی طرف متوجہ ھو۔ اور سوچے ان کے ساتھ مل کر کاروبار کرنا ھے ، انکی امداد کرنی ھے یا پھر کچھ ادھار دینا ھے۔ 
احتجاج،دھرنے،لعنت ملامت چھوڑئیے آئے کچھ ایسا کیجئے کہ ھم دنیا کے ساتھ ملکر کاروبار کریں نہ کہ احتجاج۔
ھمارے روپے کی قدر عالمی سطح پر کم ھو رھی ھے اور ھندوستان کی روز بروز بڑھ رھی ھے تو کیا چائے والا اتنا عقلمند ھے کہ وہ بیوقوف کرکٹ کا 1992 والا ورلڈ کپ نہیں جیت سکا اور ھر محاذ پر ھمیں شکت دے رھا ھے وہ چاھے سفارتی ھو یا معاشی۔
جنگ کا فیصلہ تو جنگ کے بعد ھوگا۔
ھمیں اپنی افواج پر مکمل یقین ھے۔ پر عوام کو بھی تو اپنے کام مکمل ذمہ داری سے کرنے چاھیئے۔ یا پھر سب ذمہ داری افواج پاکستان کی ھیں۔ 
اب تو ٹویٹ کرنے کی ذمہ داری بھی افواج نے لے لی ھے اس پر مکمل جرنل رکھے ھوئے ھیں۔وزیراعظم رکھے ھوئے ھیں۔ اپوزیشن رکھی ھوئی ھے وزیر رکھے ھوئے ھیں جو ٹویٹ کرتے ھیں اور سب فتح کر لیتے ھیں۔
ممالک کو گالیاں بعد میں دینا پہلے اپنے گھر کا حال سیدھا کریں باقی ایوارڈ تو ملتے ھی رھتے ھیں اور نکمے لوگ اس پر احتجاج اور ٹویٹ بھی کرتے رھتے ھیں۔
لعنت تب بھیجیں جب مقابلے میں دو لوگ ھیں جتنے والے کی بجائے ھارنے والے کو ٹرافی دے دی جائے۔جب کھلاڑی اکیلا ھو تو اسی کو ایوارڈ ملنے ھوتے ھیں۔ میرا فخر جہانگیر خان ھیں جو اپنے بل بوتے پر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتا رھا۔ جو انسان اپنی بات اپنے ٹویٹ،اپنے وعدے اپنے ارادے، اپنے دعوے،اپنی قسمیں کسی پر قائم نہ رھ سکے اس کو ایوارڈ دیئے جائیں۔ ھماری عوام،ھمارے حکمران، ھمارے جرنیل، ھمارے آرٹسٹ،ھمارے طالب علم،ھمارے پروفیشنل،ھمارے استاد، ھمارے سفارتکار، ھمارے سب شعبہ زندگی کے ماھر اور ھم خود سب کو ٹھیک ھونا ھوگا تو سب ایوارڈ بھی ھمارے ھوں گے اور دشمن ھم پر لعنتیں بھیجیں گے پر ھم آپ سب پر فخر کریں گے انشاءاللہ

Prev تھیلا
Next زندگی اور خواب

Comments are closed.