بُلھے شاہ اساں مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور

بُلھے شاہ اساں مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور

تحریر محمد اظہر حفیظ

یہ شعر سنتے تو کئی دھائیاں گزر گئیں پر سمجھ بارہ اپریل 2021 کو آیا کہ یہ کون لوگ ھوتے ھیں جو ھمیشہ زندہ رھتے ھیں اور گور میں دفن کوئی اور ھوتا ھے انکی سوچ کو دفن کرنا ممکن نہیں ھوتا ھے، نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں 1990 میں داخل ھوئے تو زیادہ تر دوستیاں لائلپور کے لوگوں سے ھوئیں اور فوٹوگرافی میرا انتہائی شوق تھا اس سلسلے میں احمر رحمن خان سے دوستی ھوئی پھر دوستی بڑھتی چلی گئی گھروں میں آنا جانا شروع ھوگئے، اب سارے خاندان سے میری دوستی ھوگئی تھی وہ سنت نگر کے مکین تھے، کراچی کے، ملتان کے یا پھر اسلام آباد سب چچا اور ماموں اور انکے بچے میرے دوست تھے سب ھی دیوانے تھے آئی اے رحمن انکل کے، دھیمے لہجے کے باوجود ان کا بہت احترام کرتے تھے رحمن انکل کم گو تھے لیکن سیمینارز میں جب انکو سننے کا موقع ملا تو ھر موضوع پر وہ ایسے بولتے تھے جیسے یہی انکا پسندیدہ موضوع ھو، غالبا آئی اے رحمن انکل ان دنوں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، ملاقات کم ھی ھوتی تھی پھر انکل نے استعفی دے دیا اور چند دن بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بھی توڑ دی گئی سننے میں آیا کہ بی بی نےآئی اے رحمن صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ کو پتہ چل گیا تھا پر آپ نے بتایا نہیں اور یوں انکل لاھور آکر ھیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ ھوگئے، میری سوال کرنے کی عادت ھے ایک دن پوچھا انکل آپ نے کس مضمون میں پڑھا اور کیرئیر کیسے شروع کیا جواب سن کر حیران رہ گیا وہ اکنامکس کے ماسٹرز تھے اور ایک دال مل میں غالبا اکاؤنٹس کی نوکری سے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور پھر طبعیت کے مطابق لکھنے پڑھنے کے کام سے وابستہ ھوگئے ضیاءالحق کے دور میں ھاوس اریسٹ بھی رھے اور مشکل وقت بھی دیکھا، کبھی کبھی میں بھی انکے دفتر چلاجاتا تھا اس طرح محترمہ ایلس فیض صاحبہ، عاصمہ جہانگیر صاحبہ، عزیز صدیقی صاحب، سلیمہ ھاشمی صاحبہ کو بھی قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ھوا ان دنوں آئی اے رحمن انکل پانچ ٹیمپل روڈ پر رھتے تھے یہ جگہ ریگل چوک اور صفاں والا چوک کا غالبا درمیان تھا ، میں ھاسٹل کے علاوہ اکثر وقت احمر کے گھر گزارتا، وھاں ڈرائنگ روم کے ساتھ ایک سنگل بیڈ والا چھوٹا کمرہ ھوتا تھا جو میرے حصے میں آیا تھا،وہ گھر کم ایک لائبریری زیادہ تھی شاید میری زندگی کی سب سے بڑی لائبریری، ھر طرف کتابیں ھی کتابیں تھی، روز ایک نئی کتاب کھول کر بیٹھ جاتا، بہت سے لکھنے والوں سے بذریعہ کتاب ملاقات بھی رحمن انکل کے توسط سے ھی ھوئی ، وہ سعادت حسن منٹو صاحب ھوں ، فیض احمد فیض صاحب ھوں، خالد احمد صاحب، اسد اللہ غالب صاحب ھوں، میر تقی میر صاحب ھوں ، لینن صاحب ھوں، احمد فراز صاحب ھوں، فہمیدہ ریاض صاحبہ ھوں، مشتاق یوسفی صاحب ھوں، حالی صاحب ھوں، اس گھر میں ھر طرح کی علمی کتب موجود تھیں اور مجھ جیسے بے ادب کو ادب سے روشناس بھی رحمن انکل نے کروایا، سادہ لباس، سادہ غذا، سادہ رھن سہن اور سادہ سی پرانی گاڑی اور صادق چاچا کا کیری ڈبہ، اس گھر کے کسی بھی فرد میں کوئی دکھاوا نہیں تھا سب سچے لوگ تھے، دو خراب ٹی وی تھے جو استری سٹینڈ کا کام کرتے تھے، اس طرح میری اماں اور ابا سے کافی انسیت ھوگئی تھی صبح مجھے جلدی اٹھنے کی عادت تھی میں اماں پاس بیٹھ جاتا اور وہ اخبار پڑھتی جاتیں اور ساتھ ساتھ تبصرے کرتی جاتیں میں اس سے بہت محظوظ ھوتا تھا اتنی دیر میں ماسی قرآن کی تلاوت کرکے فارغ ھوجاتیں اور میرے لئے ناشتہ بنا کر لے آتیں، سارا گھر ھی اپنا تھا، مجھے آئی اے رحمن انکل سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا خاص طور پر جب سارے گھر والے کراچی یا ملتان جاتے تو انکل کے پاس گھر میں میں ھی ٹھہرتا تھا، وہ میری بنائی ھوئی تصاویر دیکھتے میری راھنمائی کرتے، بھئی اظہر یہ جو جہانگیر کے مقبرے کی تصویر ھے اس کے مینار کیوں ٹیڑھے ھیں پتہ نہیں انکل ایسے ھی بنتے ھیں بھئی اس کے دو حل ھیں اگر تو سامنے عمارت ھو تو اس کے درمیان میں جاکر تصویر بنائیں تو یہ سیدھے ھوجائیں گے یا پھر جتنا دور جا کر بنائیں گے اتنے سیدھے ھوجائیں گے کمپوزیشن سکھاتے، فوٹوگرافی کس وقت کرتے ھیں بتاتے ، میرے خیال میں انکل آئی اے رحمن بہت اچھے فوٹوگرافر بھی تھے ، مختلف موضوعات پر سمجھاتے رھتے ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ اپنے سب کام خود کرتے تھے، ھاسٹل میں رھنے کی وجہ سے میں کوکنگ جانتا تھا پر انکل نے کبھی مجھے چائے بھی نہیں بنانے دی ، میرے نیشنل کالج آف آرٹس کے استاد محمود الحسن جعفری صاحب ایک دن ٹیمپل روڈ گھر تشریف لائے مجھے وھاں دیکھ کر جعفری صاحب کہنے لگے محمد اظہر حفیظ اگر تم نے زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کرلیا تو یہ سب رحمن صاحب کی صحبت کا اثر ھوگا تمھارا کوئی کمال نہیں اور میں ھمیشہ سے اس بات کا معتقد ھوں۔ احمر کی کچھ عرصہ طبعیت خراب رھی میں ھسپتال میں اسکے ساتھ رھتا تھا، احمر سے تو دوستی تھی ھی پر آئی اے رحمن انکل سے تعلق مزید بڑھ گیا، صادق چاچا انکل کے ساتھ ھوتے تھے میں نے انکل کو کبھی گاڑی چلاتے نہیں دیکھا اور وہ احترام سے انکو صادق صاحب کہہ کر بلاتے تھے، گھر پر کام کرنے والے ملازمین تو ھمیشہ سے ھی تھے پر سب کا اتنا احترام کم ھی گھروں میں دیکھا، ھاں بھئی آج کل کیا ھورھا ھے، اکثر مجھ سے پوچھتے، انکی یادداشت بہت اچھی تھی ھمیشہ سب کو نام لیکر بلاتے، پھر میں اسلام آباد آگیا مجھے کبھی کبھی موقع مل جاتا انکل کو ایئرپورٹ سے لیکر سیمنار ھال چھوڑنے کا،جو اکثر اسلام آباد ھوٹل میں ھی ھوتا تھا وھاں تک چھوڑ کر آنا، انکل کا لوگ ایسے احترام سے استقبال کرتے جیسے کوئی مرشد ھوں، انکل کی حس مزاح بہت شاندار تھی بہت سنجیدگی سے بات کہہ جاتے تھے، مجھے آج تک پاک چائنہ سینٹر کے باھر بنے سٹیل کے چاند ستارے کی سمجھ نہ آئی تھی کہ ایک دن پوچھ لیا اس کے پاس سے گزر رھے تھے انکل یہ کدھر سے نظر آتا ھے بھئی اظہر یہ احمد خان صاحب کا شاہکار ھے اس کو دیکھنے کیلئے آپ ایک چارٹرڈ طیارہ لیں اس کے اوپر آکر کہیں آھا چاند ستارہ زمین پر اور اس کو دیکھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ھے، پھر انکل فیس بک پر آگئے اکثر میری تصاویر پر اپنی رائے دیتے جو میرے لئے ھمیشہ سے ھی سب سے قیمتی رھی ، میرا پھر کام کرنے کو دل کر پڑتا، 2015 کے رمضان میں اماں اللہ پاس چلیں گئیں تو اس کے بعد میرا آنا جانا بھی لاھور کم ھوگیا پر اماں کی زندگی میں اکثر ٹاون شپ والے گھر بھی جاتا رھتا تھا، ماسی کے جانے کے بعد گھر میں باقاعدگی سے قرآن مجید کو پڑھتے میں نے رحمن انکل کو دیکھا میری خواھش تھی کہ کبھی وہ بھی لوگوں کو قرآن میں جو لکھا ھے سمجھاتے، ایک دن میں نے پوچھا کہ انکل روزانہ کتنا قرآن پڑھتے ھیں کہنے لگے بھئی اظہر ایک پاؤ روزانہ، سمجھ کر اتنا پڑھنا مشکل ھوجاتا ھے ، شاید لوگ ان کو اور طرح سے دیکھتے تھے، وہ بھی سب سچے ھیں، میٹرک میں ایک انگلش کی نظم تھی Abu bin Adam میں نے یاد تو کرلی امتحان بھی دے دیا پر جب رحمن انکل کو دیکھا تو سمجھ آیا کہ وہ نظم ان پر لکھی گئی تھی اور واقعی انکا نام ان لوگوں میں سرفہرست تھا جو اللہ کے بندوں سے پیار کرتے ھیں ، اور میں انکو باپ کے روپ میں دیکھتا تھا, میں نے کبھی اتنا سچا اور کھرا آدمی کم ھی دیکھا، انکل کو کچھ عرصہ پہلے فالج کا ھلکا اٹیک ھوا وہ اس سے نکل آئے اب کمزوری کی وجہ سے وھیل چیئر پر تھے، پر وہ پھر بھی اپنے تمام کام خود کرنا چاھتے تھے، اسی کشمکش میں وہ پردہ کرگئے، مجھے کبھی انکی زبان سے اختلاف یا غصہ محسوس نہیں ھوا، ھمیشہ مسکراتے رھتے تھے، سفاری سوٹ پہننا اور دھیمے چلنا انکی شخصیت کا حصہ تھا، میں نے دعوت دی میرے بڑے بھائی کی شادی تھی اتنی مصروفیت کے باوجود وہ فیصل آباد تشریف لائے اور ھماری ساری فیملی کو عزت بخشی، میرے والدین کے جانے پر انکے مجھے ٹیلی فون آئے، نہ آنے کی معذرت کی اور میری دلجوئی کی، نہیں انکل آپکا شکریہ کہ آپ نے افسوس کیلئے فون کیا، بھئی اظہر یہ کیا بات ھوئی، بارہ اپریل عشاء کے بعد جنازہ تھا اور تحریک لبیک کے لوگوں نے سارا پاکستان بند کر رکھا تھا اور ھم آئی اے رحمن صاحب کا جنازہ پڑھ رھے تھے بے شمار لوگ پہنچنے سے رہ گئے، وہ سب کا اپنا ابن عبدالرحمن تھا لوگ ان کو شاید سمجھ ھی نہیں سکے باھر جماعت اسلامی، الخدمت فاونڈیشن کی ایمبولینس کھڑی تھی جس میں انکو قبرستان لےجایا گیا، کیونکہ میت ایک انسان دوست عالم کی تھی جس کو ھر کوئی اپنی آنکھ سے دیکھتا تھا، اپنا سمجھتا تھا، وہ ھر وقت ھر ایک کی مدد کیلئے آواز اٹھانے کو تیار رھتے تھے، جس میں مذہب، فرقہ، لسانیت پر انکا کبھی دھیان ھی نہیں جاتے دیکھا، وہ انسانوں کی فلاح چاھتے تھے وہ بے شک کہیں بھی ھوں، ان کی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا گیا اور کئی غیر ملکی بڑے اعزازات سے نوازا گیا، سب دوستوں سے دعا کی درخواست ھے، اللہ تعالٰی انکل آئی اے رحمن صاحب کی اگلی منزلیں آسان فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائیں آمین۔

Prev دوسری دفعہ
Next ڈیزائن

Comments are closed.