بے آرام آنکھیں

بے آرام آنکھیں

تحریر محمد اظہر حفیظ

میں نے بڑا ظلم کیا اپنی آنکھوں کے ساتھ ۔ ان کو کبھی آرام ہی نہیں کرنے دیا۔ مسلسل کئی دھائیاں جگائی رکھا کئی کئی دن کے بعد پندرہ منٹ سوکر میں پھر جاگ جاتا تھا۔ میں نے کوئی خواب نہیں دیکھے کیونکہ خواب دیکھنے کیلئے سونا ضروری ہوتا ہے اور میں ان دیکھے خوابوں کی تکمیل میں لگا رہا۔ کچھ تک میں پہنچ گیا اور کچھ کا پتہ ہی نہیں تھا کہ جانا کدھر ہے۔ میں منزل کی تلاش میں نہیں جاگ رہا تھا بلکہ میں راستے دیکھنے کیلئے جاگتا رہا۔ میں نے خوب راستے دیکھے شاید دو آنکھوں کو جتنا دیکھنا چاہیے تھا اس سے زیادہ میں نے انکو دکھا دیا۔ میرا رنگ تو گندمی تھا ہی پر میری آنکھوں کارنگ بھی سفید سے گندمی ہوگیا کیونکہ انکی صفائی کیلئے سونا ضروری تھا اور میں دیکھنے کیلئے جاگتا ہی رہا۔ میں سب کچھ دیکھنا چاہتا تھا اور اپنی ضرورت سے زیادہ دیکھا۔ اور ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بھی دکھلایا۔ پتہ نہیں سب کو دکھانا میری ذمہ داری تھی بھی یا نہیں۔ پر میں بہت سے ایسے کام بھی کرتا رہا جو شاید مجھے نہیں کرنے چاہیے تھے۔ اس دیکھنے کے سفر میں کچھ دکھ اور بہت زیادہ سکھ دیکھے شکر الحمدللہ والدین کا جانا بھی دیکھا اور اولاد کا آنا بھی دیکھا ، بھانجے بھانجیاں، بھتیجیاں، بھتیجے اور بیٹیاں سب کو آتے دیکھا اور اللہ نے نواسے سے بھی نوازا۔ میری بھتیجی کا بیٹا، ماشاء اللہ ۔

آج بہت دنوں بعد ملنے آیا ماشاء اللہ چار ماہ کچھ دن کا ہو گیا ہے جو اس کو گلے لگا کر ٹھنڈ پڑی شاید ہی پہلے پڑی ہو اور شاید آج آنکھوں کا رنگ سفید ہوگیا ہو۔ ماشاءاللہ جب مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا تو میری زندگی کے سفر کی ساری تھکان اتار دی۔ شکریہ محمد کمال جاوید اور اس کے اماں ابا جو تشریف لائے۔ میں خوش ہوں الحمدللہ اللہ تعالی نظر بد سے بچائے نیک اور صالح انسان بنائے، سچا عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم بنائے آمین۔ اس کے سب عزیز اس کی خوشیاں دیکھیں آمین۔ شکریہ میرے بیٹے بے آرام آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کا۔

ان آنکھوں نے چولستان، وزیرستان، گوادر، اور سیاچین سب ہی تو دیکھا ہے پر آج کی راحت ناقابل بیان ہے۔ ماشاءاللہ

میں نے بہت سی پہاڑی چوٹیاں دیکھی ہیِ پر آج میں کسی خاص بلندی پر تھا، شکر الحمدللہ

میری آنکھوں کی تھکاوٹ اتر گئی ہے میں اور دیکھنا چاہتا ہوں اللہ کے فضل سے جینا چاہتا ہوں ۔ آج میرے پاس، آنکھیں تو ہیں پر وہ بے آرام نہیں پرسکون ہیں۔ میں جاگتی آنکھوں سے سپنے دیکھتا رہا۔ امید ہے اب منزل تک بھی پہنچ جاوں گا۔ انشاءاللہ ۔

نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے دنوں میں ایک گانا سنتے تھے مانا سفر ہے مشکل منزل بھی دور ہے پر جانا ضرور ہے جی جانا ضرور ہے۔

ہمارے دوست اور بھائی غلام حبیب صاحب فرماتے ہیں ۔ کہ جب تھک جاو تو گرم دودھ میں ایک چمچ شہد ڈال کر پیا کرو تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے پر آج پتہ چلا اولاد اور اولاد کی اولاد سے محبت کی جھپی بھی تھکاوٹ کا بہترین علاج ہے۔

اللہ تعالی سب کو یہ خوشیاں دیکھنی نصیب فرمائے آمین صحت مند اولاد کی نعمت سے نوازے آمین۔ سب بیٹے بیٹیوں کیلئے خصوصی دعا کی درخواست ہے اللہ سب کے اچھے نصیب کریں آمین اور اپنے گھروں میں خوش رہیں آمین۔ سب کی اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنے آمین۔

Prev آپ فری ہیں
Next نیا جنم

Comments are closed.