بے بس

بے بس
تحریر محمد اظہر حفیظ

اللہ کسی کو بے بسی نہ دکھائے۔ مجھے یاد ھے میری امی جی آخری سانسیں لے رھی تھی اور میں گلیوں میں دوڑتا پھر رھا تھا ریسکیو 1122 شاید راستہ بھول گئی ھے پھر گھر واپس آتا۔ بیوی بچوں کو دلاسہ دیتا اور پھر باھر بھاگ جاتا کبھی انکو کال کرتا جی ایمبولینس آپ کی طرف ھی گئی ھے۔ اور امی جی کلمہ پڑھتے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ اور گاڑی آگئی در اصل ھم ایک میت کو گھر چھوڑنے گئے تھے اس لئے دیر ھوگئی۔ اور اندر ایک اور میت تیار ھوچکی تھی۔ میں شاید ھی گلیوں میں کبھی ایسے دیوانہ وار بھاگا ھوں گا۔ مجھے یاد ھے رضا قادری میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ھے اسکے بچے کی طبیعت خراب ھوئی وہ ھسپتال لیکر جارھا تھا کہ ٹریفک بلاک ھوگئی وہ گاڑی چھوڑ کر بچہ گود میں لئے پیدل بھاگا لیکن دیر ھوچکی تھی۔ کچھ دوستوں کا خیال ھے رضا بات کرتے کرتے تلخ ھوجاتا ھے۔ میرا تو خیال ھے جس کا بھی واسطہ بے بسی سے پڑ گیا وہ تلخ ھی ھوگیا۔ مجھے یاد ھے ابا جی کی طبعیت زیادہ خراب تھی فوت ھونے سے دو تین دن پہلے ھم انکو ھسپتال لیکر پہنچے سٹریچر اور وھیل چیئر کچھ بھی نہیں مل رھا تھا کافی وقت گزر گیا کہنے لگے یار اظہر واش روم جانا ھے میں نے عرض کی کوئی بات نہیں گاڑی میں ھی کردیں اور واپسی پر ھم نے اپنی وھیل چیئر ھی خرید لی لیکن اسی رات انکا انتقال ھوگیا میرے ذھن سے میرے بھائی کا وہ دوڑنا نہیں جاتا۔ 
ناصر شفیق میرا بچپن کا یار،میرا چچا زاد بھائی کی بیٹی کا پیلے یرقان سے انتقال ھوگیا کوئی اٹھ یا دس سال کی بچی تھی میں لائلپور پہنچا بڑا مضبوط کیا اپنے آپ کو ناصر بھائی سے نظر بھی نہیں ملائی اور جنازہ اٹھایا کوئی بیس کلو کا جنازہ ھوگا میری زندگی میں اتنا پھول جیسا ھلکا پھلکا جنازہ کبھی نہیں اٹھایا تھا میرے حوصلے نے ساتھ چھوڑ دیا اور میری ھچکی بند گئی۔ وہ دن اور آج کا دن ناصر بھائی سے آنکھ ملانے کا حوصلہ نہیں ھے۔ اگست کا مہینہ تھا میری تایا زاد بہن عفت سعودیہ سے اسلام آباد ائیرپورٹ آئیں انکو آخری سٹیج کا کینسر تھا میرا بہت پیار تھا باجی سے میری بڑی بہن تھی۔ میں پی ٹی وی کی ایمبولینس لیکر گیا ساتھ میری گاڑی تھی وہ جہاز سے وھیل چیئر پر باھر آئیں میں انکو لیکر ایمبولینس کے پاس آیا کہنے لگیں اظہر بابو مجھ سے لیٹا نہیں جاتا ۔ کوئی بیٹھنے کا بندوبست کرو ۔ میں نے اپنی کار کی اگلی سیٹ تھوڑی لٹائی اور باجی کو بٹھالیا اور گھر کی طرف چل پڑا سورہ الرحمن لگائی ھوئی تھی میرے آنسو رواں تھے کہنے لگی بابو رو نہ اب میں ٹھیک ھوں اپنے وطن آگئی ھوں آج بہت دنوں بعد درد کم ھوا ھے جی باجی تسی فکر نہ کرو اور میں اپنی بہن کیلئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اور وہ چند دن کے بعد اللہ پاس چلی گیئں۔ میں فورٹ منرو اپنے کمرے میں لیٹا ھوا تھا اور واٹس ایپ دیکھ رھا تھا کہ پی ٹی وی کے گروپ میں میری ٹیم کے ایک بچے کا ڈیوٹی کارڈ شیئر ھوا تلہ گنگ کے نزدیک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ھے اس کے گھر والوں کو اطلاع کردیں میں نے فورا لکھا یہ ھمارا بچہ ھے یاسر اقبال اور اس کے والد چچا اقبال بھی ھمارے ڈیپارٹمنٹ میں ھوتے ھیں میں اطلاع کر دیتا ھوں۔ میں نے چچا اقبال کو فون ملایا۔ اگے سے چچا اقبال کی آواز آئی اظہر صاحب میرا یاسر اللہ پاس چلا گیا پھر میرے سے بھی بات نہ ھو پائی اور آج تک بات کرنے کی ھمت نہیں ھے۔ مجھے یاد ھے میری چچا زاد بہن باجی نگہت کا چھوٹا بیٹا واش روم میں بالٹی میں الٹ گیا اور پانی میں دم گھٹنے سے فوت ھوگیا۔ میری بڑی لاڈلی بہن ھے ۔ بہت بہادر ھے اس بات کو کئی سال ھوگئے میں بے بس ھوں میرے میں ھمت نہیں ھے اس کے گھر جاوں۔ کیا کروں۔ مجھے دلاسہ دینا نہیں آتا موت برحق ھے پر کیا کروں۔ مصطفی مندوخیل صاحب کا جواں سال بیٹا اللہ پاس چلا گیا بہت بہادر انسان ھیں اسلم اظہر صاحب کو دفنا رھے تھے اور مندوخیل صاحب کے بیٹے کی قبر بھی پاس ھی تھی اور وہ بہت کوشش کے باوجود اپنے آنسو نہیں روک پارھے تھے اور ایک سائیڈ پر کھڑے سرخ آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھے یہ بے بسی میرے اختیار میں نہ تھی کئی گھنٹے گھر آکر روتا رھا۔ سب پوچھیں کیا ھوا بتانے کو کچھ تھا ھی نہیں مجھے دکھ بتانا نہیں آتا ۔ ناصر نعیم صاحب کی بیٹی ثنا فوت ھوگئی بہت خدمت کی انہوں نے میری حالت یہ تھی کہ انکے گھر کا راستہ ھی بھول گیا اور جنازے سے ھی لیٹ ھوگیا پھر انکے امی ابو بھی اللہ پاس چلے گئے ۔ ھم اکثر سفر ساتھ کرتے ھیں بہت دور دور کے لیکن میرے پاس کوئی بات نہیں ھے انسے کرنے کیلئے۔ آصف حسین زیدی میرا بہت قریبی دوست ساڑے تین سال سے بستر پر پڑا ھے دیکھتا ھے روتا ھے نہ ھل سکتا ھے نہ بول سکتا ھے۔ اور میں نے لاھور جانا ھی چھوڑ دیا۔ کوئی بھی جگہ ایسی نہیں ھے جس سے میری اور شاہ جی کی یادیں وابستہ نہ ھوں۔ ان سے بڑا دلیر بھی آج تک نہیں دیکھا پر اب یہ انکی بے بسی بھی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ بس کمزور انسان کی طرح رونا ھی آتا ھے۔ میں بہت کمزور ھوں اور بے بس ھوں۔ رو سکتا ھوں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ وہ میرے دوست ھوں،بہن بھائی ھوں یا بیوی بچے۔ 
مجھے لاچارگی، بے بسی پسند نہیں۔ پر میں کچھ بھی تو نہیں کر سکتا۔ بس رو سکتا ھوں اس سے آگے بے بس ھوں۔
سب کیلئے دعا کرتا ھوں ۔ سوچتا ھوں ۔ اس سے آگے کی میری اوقات نہیں ھے۔ یااللہ میری مدد فرما۔ مجھے بے بسی سے نکال دے میری ھمت نہیں ھے ایسے دکھ اٹھانے کی ۔ میں تو اب کسی کا سامنا بھی نہیں کر سکتا۔ کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا۔ یااللہ میری مدد فرما۔

Prev ماں
Next فادرز ڈے اور کرکٹ

Comments are closed.