جستجو

جستجو
تحریر محمد اظہر حفیظ

جو جستجو ایک گاؤں کے بچے میں ہوتی ہے شاید ہی کسی اور میں ہو۔
کسی چیز کو جاننے کا علم ہی تو جستجو کہلاتی ہے۔
جس گلی کے باھر لکھا دیکھا کہ گلی بند ہے الحمدللہ ہر اس گلی میں جاکر تصدیق کی کہ بند بھی ہے یا ویسے ہی بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اگر کسی جگہ تختی آویزاں ہے کہ فرش گیلا ہے ضرور پاوں رکھ کر چیک کیا اور گیلے فرش پر پاوں کے نشان آنے پر صفائی والے سے گالیاں الگ کھائیں۔
ایسے ہزاروں تجربات کرچکنے کے بعد فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ مکمل ہونا شروع ہوا۔
جب بھی کسی نے کہا صاحب کا موڈ آف ہے اندرمت جائیں الحمدللہ اندر جا کر اس بات کی تصدیق کی اور باہر آکر گواہی دی کہ واقعی صاحب کا موڈ سخت خراب ہے۔
گلیشیئر کی باقیات کیچڑ کی شکل میں بچتی ہیں اس پر آپ چڑھ تو سکتے ہیں پر اتر نہیں سکتے۔ کیونکہ پاوں سلپ ہوتا ہے اور پکڑنے کیلئے کچھ بھی تو نہیں ہوتا،بس آپ سلائیڈ کرکے ہی اتر سکتے ہیں 1997 میں یہ تجربہ بھی کرکے دیکھا کہ کیا یہ سچ ہے یا پھر جھوٹ پر مبنی کہانیاں ہی ہیں۔
رات کو قبرستان کے پاس سے نہیں گزرتے ہوائی چیزیں ہوتی ہیں ۔ ہمیشہ گزرکر دیکھا ڈر بہت لگا لیکن نظر کچھ نہیں آیا۔ کیونکہ اسطرف دیکھا ہی نہیں۔
کسی نے بتایا کہ جن اور چڑیلوں کے پاوں الٹے ہوتے ہیں۔ الحمدللہ شکل سے ثابت بھی ہو گیا کہ یہ شکل جن یا چڑیل کی ہی ہوسکتی ہے بہت کوشش کے باوجود پاوں نہیں دیکھے۔
یہ گاؤں میں چاچا رحمت علی ہے اس کو سلام نہیں کرتے جب تک گاوں میں رہے ہمیشہ سلام کرکے گزرے اور بے شمار گالیاں کھائیں۔ پھر چاچا فوت ہوگیا اور ہمارا سلام قبول ہوگیا۔
جب بھی کسی الٹےکام کی اطلاع آتی امی جی بیچاری سمجھ جاتیں میرے لعل نے ہی یہ کارنامہ انجام دیاہوگا۔
راوی دریا میں اس علاقے میں بہت دلدل ہے ۔ عین اسی جگہ سے لائف جیکٹ پہن کر دریا ضرور کراس کیا۔ بعد میں پتہ چلا لائف جیکٹ پانی کیلئے ہوتی ہے دلدل کیلئے نہیں۔
زمین پر بیٹھ کر بجلی مرمت کے کام نہیں کرتے ۔ بجلی کا ٹانکہ لگانے والا قاویہ لیکر زمین پر بیٹھا ٹانکے لگا رہا تھا ایک شاندار کرنٹ نے استقبال کیا اور بہت مزا۔ آواز آئی ہائےمر گیا اور جھٹکے سے قاویہ کی تارسوئچ سے نکل گئی اور امی جی بھاگی ہوئی آئیں کیا ہوا۔ کچھ بھی تو نہیں ایسے ہی مذاق کررہاتھا۔ کیونکہ سچ بول کر کرنٹ کے ساتھ تھپڑ کھانا ایک قیمت میں دو مزے کچھ مناسب نہیں لگتا تھا۔
موٹر سائیکل سے گر جانا اور کسی کو نہ بتانا معمول تھا پھر گھٹنے سے پھٹی ہوئی شلوار چغلی کھا جاتی تھی اور امی کہتیں میرے لعل ہمیشہ ایسے کام ہی کیوں کرتے ہو۔
ایک دفعہ لڑائی میں کنپٹی پر مد مقابل نے لوہے کا پنچ ہاتھ پر پہن کر مارا۔ چکر ہی آگیا۔ اب درد ہے کہ جائے نا۔ امی جی کرکٹ کھیلتے ھارڈ بال اس جگہ لگ گئی بہت درد ہے ۔ نیوکٹاریاں مارکیٹ میں کیپٹن نیاز نام کے بزرگ ڈاکٹر تھے امی جی لیکر انکے پاس چلی گئیں۔ انھوں نے بغور معائنہ کیا اور کہنے لگے اچھی گیند تھی جس کی چار آہنی انگلیاں بھی تھیں کونس کلاس میں ہو برخوردار۔ جی ڈاکٹر صاحب ساتویں میں۔ ماشاء الله اتنی چھوٹی عمر میں آہنی ہاتھوں سے لڑائیاں۔ انھوں نے دوا لگادی اور درد کی دوا دے دی۔ گھر آگر امی جی ایک دفعہ پھر آہنی ہاتھوں سے ملیں۔ پر اپنے لئے یہ ایک معمول تھا ۔ جب بھی باہر لڑ کر آئے مار کھائی یا مارا دونوں صورتوں میں گھر سے مار پڑی۔
بارش میں موٹرسائیکل احتیاط سے چلاتے ہیں ہمیشہ بے احتیاطی سے چلایا اور کدوکش کیا ہوتا ہے ۔ سمجھ میں آیا جب سڑک نے کدوکش کی طرح چھیلا۔
یار یہ لڑکا اچھا نہیں ہے چرس پیتاہے۔ پاس جاکر دوستی کرکے دیکھالوگ ٹھیک کہتے ہیں۔
بہت سے لوگوں سے کاروباری شراکت کی اور یہ سب وہ تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ فراڈیئے ہیں۔ ان سے بچنا چاہیے۔ پھر عین الیقین سمجھ آیا کیا ہوتا ہے کہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں۔
زندگی تجربات سے بھری پڑی ہے جب بیٹیاں پوچھتی ہیں بابا جی آپ کو سب کیسے پتہ ہوتا ہے کیا بتاوں پتہ لگایا ہے تو پتہ چلا یے۔ اس جستجو نے مجھے اب بہت محتاط بنا دیا ہے۔ ہمیشہ دو چھتریاں لیکر چلتا ہوں ایک اپنے لئے اور ایک اپنے جیسے پینڈو کیلئے جو بادل دیکھ کر بھی سوچتا ہے پتہ نہیں بارش ہوگی بھی کہ نہیں۔ اگے مت جائیں بلاسٹنگ ہو رہی ہے جی تصویر بنانی ہے ضرور جاکر دیکھا اور کئی دفعہ موت کے منہ سے بچے۔ یہ سیاچن ہے یہاں بہت آہستہ چلتے ہیں ورنہ جسم سے آکسیجن ختم ہوجاتی ہے الحمدللہ وہاں بھی تیز تیزچل کر دیکھا اور پھر آکسیجن سلنڈر پر شفٹ ہوگئے۔
میرے سب تجربے ذاتی ہیں ساتویں جماعت میں ہی اپنا ریڈیو بنا لیا تھا۔ اور کئی دفعہ چاند پر جانے کا ارادہ بھی کیا پر ہر دفعہ تھوڑا بہت فرق رہ گیا ۔ پنکھے کے آگے کھڑے ہوکر کشش ثقل کے بغیر جگہ کے مطابق خلا میں چلنے کی پریکٹس بھی کرتا رہا ۔ ہوا میں معلق میری دھوتی دیکھ کر ہی انگریز نے سپر مین کا کریکٹر بنایا بس دھوتی اس کے گلے میں ڈال دی ۔
پھر گھر والوں نے لاچا اور دھوتی پہننے پر پابندی لگا دی۔
کچھ دن پہلے ہی میرا لاچا الماری سے نکال کر میری بیٹیاں خوش ہو رہی تھیں اتنا خوبصورت کلر فل کپڑا بابا یہ کیا ہے ۔ بیٹا یہ میرا لاچا ہے۔ آپ اس کو مردوں کی سکرٹ کہہ سکتی ہو۔ اور کیا بتاتا۔
لاچا کبھی پنجابیوں کی شان ہوتا تھا۔ اب ڈھول والے پہن کر دھمال ڈالتے ہیں۔
بہت سا وقت اور پیسہ بلیک اینڈ وائٹ کو کلر کیمیکل میں ڈیویلپ کرکے اور کلر کو بلیک اینڈ وائٹ کیمیکل میں ڈیویلپ کرکے ضائع کیا۔ کچھ بھی تو سامنے نہیں آتا تھا۔ نیگیٹو وہی تصویر بنتا ہے جس پر کچھ ہو خالی نیگیٹو کبھی تصویر نہیں بن سکتا۔ یہ آخری فیصلہ تھا۔
اکثر پیپر کاٹ کر احتیاطاً جیکٹ میں ڈال لیتا تھا تاکہ روشنی سے مزید بچایا جاسکے اور پھر ڈارک روم سے نکل کر چائے پینے کینٹین چلا جاتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ روشنی لگنے سے پیپر خراب ہوجاتا ہے ۔ اور ہمیشہ ہی ہوا۔ پہلے اپنی غلطیوں سے سیکھتا تھا اب لوگوں کی غلطیوں سے سیکھتا ہوں۔ کیونکہ میں یہ سب غلطیاِں اپنے حصے کی کرچکا ہوں ۔
جس جگہ لکھا دیکھا تصویر بنانا منع ہے ضرور بنا کر دیکھی۔ جہاں لکھا دیکھانہانا منع ہے نہا کر دیکھا ، جہاں لکھا دیکھا پیشاب کرنا منع ہے پیشاب کرکے دیکھا۔ کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔ سوات گئے 2009 میں خودکش حملوں کا دور دورہ تھا ۔ ہر ناکے پر لکھا تھاچادر اتار کر آگے آئیں مجھے اپنا لاچا بہت یاد آیا۔ آج اگر پہنا ہوتا تو کتنا شغل لگتا۔
باتیں کرنے کا ہمیشہ سے ہی بہت شوق تھا اور بے شمار جگہوں سے ذلت اٹھائی۔ پر اس عادت ہر کنٹرول نہ حاصل کرسکا۔ کیونکہ ذلیل بھی بندہ بغیر جستجو کے نہیں ہوسکتا۔ بہت کوشش کرنا پڑتی ہے۔ تب جاکر یہ جستجو مکمل ہوتی ہے۔
جہاں جہاں خودکش حملے ہوتے تھے ان سب جگہوں پر گیا۔ کہ شاید کسی بلاسٹ کی تصویر بنا سکوں۔ اس کیلئے وزیرستان کے کئی چالیس روزہ چلے کاٹے پر ناکام ہی رہے۔ سوچتا،تھا کبھی خودکش حملہ آور کی شکل دیکھوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جگہ کچھ سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا۔ تقریبا میرے ہم شکل ہی تھے۔ سپاٹ چہرے جن پر کوئی ایکسپریشن نہیں تھا۔ جیسا کہ وہ بھی جستجو میں ہوں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔
کبھی نہ ختم ہونے کا نام ہی جستجو ہے۔
شاید یہی زندگی ہے۔

Prev منزل
Next جگر کا ٹرانسپلانٹ

Comments are closed.