جونک

جونک
تحریر محمد اظہر حفیظ

گاوں میں ھمارے سکول کے ساتھ ایک چھپڑ ھوتا تھا جس میں جانور پانی پینے اور نہانے آتے تھے اور جب باھر نکلتے تھے تو ان کے جسم پر کالے رنگ کے لمبے لمبے موٹے سست قسم کے کیڑے لٹک رھے ھوتے تھے جن کو جانوروں کے مالکان فورا ان کے جسم سے اتارتے تھے اور ھلاک کردیتے تھے پر وھاں سے خون نکلنا شروع ھوجاتا تھا، پھر پتہ چلا کہ اس کو جونک کہتے ھیں جس کا کام ھی خون چوسنا ھے، اکثر حکیم حضرات شروع شروع میں جسم سے گندے خون کے خاتمے کیلئے بھی جونکوں کا استعمال کرتے تھے، جہاں کوئی بڑا پھوڑا ھوتا اس پر جونک لگا کر اس میں سے خون کو نکال لیا جاتا جونک اس جگہ سے بلڈ کو پی جاتی تھی، شاید کینسر کے علاج کیلئے بھی اس کو استعمال کیا جاتا تھا، نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں زمانہ طالب علمی میں سر میں بال جھڑ کا مسئلہ شروع ھوا تو بیڈن روڈ پر عسکری دواخانہ ھوتا تھا یہ ھمارے استاد عسکری میاں ایرانی صاحب کے چھوٹے بھائی صاحب کا تھا، ان سے دوائی لی تو وہ بتانے لگے یہ دوائی جونک کو استعمال کرکے بنائی جاتی ھے یہ ایک نیا استعمال سامنے آیا بال جھڑ تو کچھ دنوں میں ختم ھوگیا پر ھر طرف خون پینے والے احباب نظر آنا شروع ھو گئے، جو مجھے ھمیشہ سے جونکیں ھی نظر آئے، بلکل اسی طرح بہت ھی سکون سے آھستہ آھستہ خون پی رھے ھوتے ھیں، کچھ جونکوں کو مختلف اداروں کے ساتھ منسلک پایا، کچھ کو دینی جماعتوں کے ساتھ اور کچھ کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ، سب سے خطرناک جونکیں وہ ھیں جو اپنے ھی ملک کا خون پی رھی ھیں اگر فوری طور پر ان کو ملک کےجسم سے جدا نہ کیا گیا تو ھمارا پاکستان خون کی کمی کا شکار ھوجائے گا جوکہ کسی کیلئے بھی مناسب نہیں ھوگا، ھمیں فوری طور پر سخت تادیبی کاروائیاں کرنا ھونگیں، تاکہ ان جونکوں کا سدباب کیا جا سکے، ھر شعبہ ہائے زندگی سے ھمیں ان جونکوں کو تلاش کرنا ھوگا بے شک وہ پانی میں ھوں، خشکی پہ ھوں یا ھوا میں ان سب کا سدباب پاکستان کی بقاء کیلئے بہت ضروری ھے، جونک کا اندازہ اس کے بڑھتے ھوئے اثاثوں سے یا آمدن سے زائد اثاثوں سے فورا لگایا جاسکتا ھے، اس کا تدارک فوری طور پر ضروری ھے بے شک اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ھو، اور اس کو معاف کرنے، اپیل کرنے کا بھی حق نہیں ھونا چاھیئے، جو بھی جونک کام کرے وہ پورے پیسے واپس کرے بمعہ سود کے کہ اس نے یہ پیسہ کتنا عرصہ زیر استعمال رکھا نہ کہ کچھ فیصد وصول کر کے اسکو معافی دے دی جائے، احتساب کرنےوالے اداروں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے کہ کون کون انسان سے جونک میں تبدیل ھوچکا ھے، باقی تمام اداروں کی جونکوں کو اسی طرح اتار پھینکا جائے جس طرح جانور کے مالک جانور کے جسم سے اتارتے ھیں اور جونک کو ھلاک بھی کردیتے ھیں، تہمت لگانے والے کو قرار واقعی سزا دی جائے، اور جرم کرنے والے کی بھی کوئی معافی نہ ھو، سزائیں سب کیلئے برابر ھوں اور انصاف بھی برابر ھو، انصاف کے شعبے سے وابستہ جونکوں کو وھی سزا دی جائے جس کا فیصلہ انھوں نے غلط کیا ھو، پھر دیکھتے ھیں ویڈیو ثبوت کیسے ناکافی ھیں، سانحہ ساھیوال والے کیسے آزاد ھوئے اور سانحہ ماڈل ٹاون والے ابھی تک پھانسی پر کیوں نہیں لٹکے، بے نظیر صاحبہ کے قاتل کون ھیں، لیاقت علی خان صاحب کے قاتل کون ھیں، مرتضی بھٹو کے قاتل کون ھیں، کراچی کو سمندر کس نے بنایا، لوگ جیل سے علاج کیلئے کیسے باھر جاتے ھیں، چینی، آٹا ، پیٹرول کیوں مہنگا ھورھا ھے ھمیں جونکوں کا بھی پتہ ھے پر علاج نہیں کرتے، کم از کم ان کو ھاون دستہ میں پیس کر دوا ھی بنا لیں شاید کچھ لوگوں کے بال جھڑ کا علاج ھوجائے اور ملک کی صحت بھی بہتر ھوجائے،

Prev بھنگ
Next چل رھن دے

Comments are closed.