جی لیں

جی لیں

تحریر محمد اظہر حفیظ

جینا بہت آسان ھے، کسی کے گھر کے باھر ریت کی ٹرالی یا ٹرک آئے پہلے تو خوب اس پر اچھل کود کریں، پھر تھوڑی سی ڈانٹ کھائیں اور سائیڈ پر بیٹھ جائیں جب انکل یا آنٹی چلی جائیں بغیر انوسٹمنٹ گھر بنائیں، جوتے اتاریں ان پر بیٹھ کر ننگے پاؤں پر ٹھنڈی ریت کے گھروندے بنائیں، نہ دروازوں کی فکر نہ چار دیواری کا رولا، نہ سریا نہ سیمنٹ، نہ نقشہ نہ این او سی بس گھر بناتے جائیں سب کے علیحدہ علیحدہ کمرے، چاھیں تو روشندان اور کھڑکیاں بھی بنا لیں، نہ زلزلے کی فکر نہ سیلاب کا ڈر نہ سمندر کنارے جانے کی ضرورت بس جی لیں اپنی پسند کی زندگی، ایک روپے کے چار بنٹے لیں اور لگا لیں گیم ، جیت گئے تو آٹھ ھوجائیں گے ھار گئے تو کوئی بات نہیں گیم کا مزا تو آگیا، دو روپے کی شکرقندی لیں خوب مصالحہ ڈالیں کینو نچوڑیں اور سی سی کرتے کھاجائیں وٹامن سی بھی پورا اور آنکھیں بھی دھل جائیں گی، لو جناب گول گپے والا آگیا یاد رکھنا گول گپے اصل میں کھٹے والے ھی ھوتے ھیں، میٹھے گول گپے نقل ھوتے ھیں، ٹھنڈا ٹھار کھٹا اور پکنچر گول گپے چنوں کے ساتھ مزا لیں اور جی لیں مزے کی زندگی، سب گول گپوں میں ایک بات مشترک ھوتی ھے آپ سوچ رھے ھوں گے کہ گول ھوتے ھیں نہیں جناب سب ھی لیک اور پنکچر ھوتے ھیں، گول گپے کھائیں اور کھٹا کپڑوں پر نہ گرے پھر مزا تو نہ آیا، کھالے پر جائیں کپڑے اتاریں اور نہا لیں نہ کسی نیکر کی ضرورت نہ سوئمنگ سوٹ کی ضرورت، نہ کوئی شیم شیم کہے کیونکہ سب ھی اسی طرح نہارھے ھوتے تھے، آنکھ کا پردہ تھا اور زندگی تھی، لسی لینے جاو اور اس پر مکھن کا پیڑا خالہ، پھوپھی محبت سے ھی رکھ دیتیں تھیں، نہ چاٹی کی لسی رھی نہ ویسی خالہ اور پھوپھی رھیں، گلی ڈنڈا بھی عجیب عوامی کھیل ھے نہ یونیفارم نہ خاص گلی نہ ڈنڈا نہ کوئی گراونڈ، جو ھتھ لگ گیا ھوگئے شروع ،دھوتی پہنی ھے شلوار پہنی ھے یا لنگوٹ پہنا ھے گلی ڈنڈے کو کبھی اعتراض نہ ھوا کہ کیا پہن رکھا ھے، عزت یونیفارم کی نہ تھی بلکہ کھیل کی تھی، بارہ ٹہنی دماغ تیز کرنے کا سب سے سستا کھیل زمین پر لائنیں لگاو اور بجری اور پتھروں کی گوٹیاں بناو اور ھوجاو شروع، گاجر، مولی، شلجم زمین سے کھینچا صاف کیا اور کھاگئے، آم، آمرود، بیر، جامن اتارے اور کھالئے نہ سپرے نہ دھونے کی فکر نہ جراثیم، کماد دیکھا گنا توڑا کچھ چوس لیا اور کچھ لڑنے کے کام آگیا، دانت مسوڑے سب مضبوط تھے، جہاں نلکا نظر آیا منہ لگایا پانی پی لیا، جی لیا، پتنگ بازی مزے کا کھیل تھا سب جیتے تھے مرتا کوئی نہ تھا نہ کسی کے گلے پر ڈور پھرتی تھی، چھرا، پھرپھراٹا، توکل، پتنگ سب ھی تو تھے ڈور بھی تھی پر شریف ڈور تھی کوئی قاتل ڈور نہ تھی تھوڑے پیسوں میں ھی بسنت ھوجاتی تھی، پتنگ ٹوٹ کر چلی جائے تو واپس کر دیتے تھے، بھلا وقت تھا

سستی سستی خوشیاں تھیں جینے کے بہانے تھے، کسی کو ھنستے دیکھنا تو بلاوجہ ھنس دینا روتے دیکھنا تو رو دینا، اب تو بے حس سے لوگ آرھے ھیں کئی کئی سال نہ روتے ھیں اور نہ ھی ھنستے ھیں، کھانا بورے کی ڈبل روٹی، ابلی سبزیاں، ابلا چکن، سلاد، منرل واٹر، آرگینک سبزیاں تے مالک اربوں روپے کے، اس بہتر نہ تھا غریب تھے پر اپنی مرضی سے جی رھے تھے، ایک درخواست ھے پیسے جس جس سے لئے ھیں چھینے ھیں واپس کردیں، بس جی لیں

Prev لینڈ سلائیڈ
Next وقت کرتا جو وفا

Comments are closed.