خواب ھیں رھنے والے

خواب ھیں رھنے والے
تحریر محمد اظہر حفیظ

جو ھو نہیں سکتا ھم اسی کے خواب دیکھتے ھیں سوتے میں بھی اور جاگتے میں بھی۔
اسی لئے ھمارے سارے نقصان اور فائدے بھی خواب میں ھی ھوتے ھیں۔ ھم تعلیم بھی خواب میں ھی حاصل کرتے ھیں اور نوکریاں بھی خواب میں ھی کرتے ھیں ۔ کئی بڑے بڑے کاروبار، فیکڑیاں بھی لگا چکے ھیں، ایٹم بم بنا کر چلا چکے ھیں ھمارے دشمن نیست و نابود ھوچکے ، بلوچستان میں امن ھو چکا، کشمیر ھماری شہ رگ بن چکا بس قبضہ کسی اور کا ھے خالصتان ایک الگ صوبہ ھے۔ میں فوٹوگرافی پر ریسرچ کرنا چاھتا ھوں وہ مجھے آسام، ناگالینڈ، کشمیر پر ریسرچ کروائی جارھے ھیں، میرے خواب بھی کوئی اور دیکھتا ھے۔ گیارہ گروپس تحقیق کر رھے ھیں ۔ سب لکھے کو دوبارہ لکھ کر خوابوں میں ریسرچ کر رھے ھیں کوئی اس کو فریمنگ کہہ رھا ھے اور کسی کا خواب ھے کہ ڈان اور نیوز سارے کا سارا انڈیا کی ماں بہن کر دے۔ ھر اخبار، چیننل کی اپنی پالیسی ھے پر ھم خواب اپنے اس پر ٹھونسنا چاھتے ھیں۔ میری بیٹیاں کیا بنیں مجھے کیا پتہ ۔ وہ خود یہ فیصلہ کریں پر انکی ماں کہتی ھے آپ بتائیں۔ آرٹسٹ زبردستی نہیں بن سکتا۔ اس کی اپنی سوچ ھے مرضی ھے اپنے خواب ھیں وہ کیوں میرے خواب دیکھے۔اس کو اپنے خواب دیکھنے دو، مجھے تو کسی اور کا خواب میں آنا بھی مداخلت لگتا ھے کہ جیسے کوئی زبردستی ھمارے خوابوں میں آرھے ھیں۔ خواب بھی کنٹرولڈ ھونے چاھیئے جو بس میں ھو وھی خواب میں آئے۔
اپنی زندگی جیو اپنے خواب دیکھو میں تو نہیں بتا سکتا کہ آپ کیا خواب دیکھیں۔ اور آپکے خواب کی تعبیر کیا ھوگی اور اگر آپ یا میں ایک دوسرے کے خواب میں آتے ھیں تو یہ بھی مناسب نہیں ھے۔ میں حقیقت میں تصویریں بنانا چاھتا ھوں پر یہ بھی ایک خواب ھی ھے صرف تصویریں بنانے پر دفعہ ایک سو چوالیس ھے باقی قتل، چوری، ڈکیتی سب کی اجازت ھے۔ میں خواب دیکھتا ھوں ایک پرامن پاکستان کے اور حکومت اس کو ریاست مدینہ بنانا چاھتی ھے۔ سب کے خواب اپنے اپنے ھیں۔ میں جینا نہیں چاھتا اور دعائیں ھزار برس کی ھیں ۔ ھم کسی کی چاھت پر کیسے جی سکتے ھیں۔ جن کے خوابوں کی تصویریں ھم بناتے ھیں وہ ادائیگی بھی خوابوں میں ھی کرتے ھیں۔ اور ھم زندگی بدلنے کے خواب دیکھ رھے ھیں مسلسل۔ جن کی بات زندہ لوگ نہیں سنتے وہ قبروں پر بیٹھے قبولیت کے انتظار میں دعائیں مانگ رھے ھیں۔ ھماری حکومت بھی عجیب حکومت ھے خواب ریاست مدینہ کے اور دعائیں پاکپتن میں۔
پتہ نہیں یہ کیسے لوگ ھیں جن کا گم کچھ بھی نہیں ھوا اور مسلسل ڈھونڈ رھے ھیں۔ جو خود فراڈ ھے وہ صادق اور امین ھونے کے سرٹیفیکیٹ عدالتوں سے حاصل کر رھے ھیں۔ جو ریٹائرمنٹ کے بعد ایکٹینشن کا خواھاں ھے وہ کہتا ھے سب کو جوانی میں ریٹائر کردو۔ جب کوئی بھی وقت کیلئے لازم و ملزوم نہیں تو پھر کچھ دوست تاحیات کے خواب کیسے دیکھی بیٹھے ھیں۔ ھمارے سارے بڑے عہدے دار ساٹھ سال سے اوپر اور مزدور کی عمر اٹھاون سال مقرر۔ خواب دیوانے کے ٹکے کے نہ آنے کے۔
محبت ضرورت نہیں حقیقت ھے پر لوگ اس کو بھی اپنا ھی رنگ دے رھے ھیں ھر کوئی اپنے خواب کسی دوسرے پر ٹھونسنا چاھتا ھے پر میں ایسا نہیں کر سکتا جو جانا چاھتا ھے جائے نہ میں روکوں گا نہ ھی رکنے کا کہوں گا۔ کیونکہ سب کے خیال و خواب اپنے ھیں جینے دیں مکمل کرنے دیں خواب ھم کون ھوتے ھیں روکنے والے۔ کبھی کبھی تو سب کچھ خواب ھی نظر آتا ھے اور لوگ دلیلیں دے رھے ھیں کہ یہ حقیقت ھے۔ ھم خوابوں میں جینے والے لوگ ھیں ھمیں سونے دو جینے دو۔ بے شک نیند موت کی طرح ھے جس میں زندگی ختم ھوجاتی ھے۔ میرے اب کوئی خواب نہیں ھیں نہ دیکھنا چاھتا ھوں کچھ ذمہ داریاں ھیں جن کو نبھانا ھے اگر میرے رب نے مہلت دی ورنہ میں کیا میرے خواب کیا۔
اور خواب دیکھتے ھیں پڑھا لکھا پاکستان، خوشحال پاکستان، صنعتی انقلاب، بہترین سفری سہولیات، بہترین علاج گاھیں، میرٹ پر نوکریاں،ڈالر پچاس کا،پیٹرول پچاس کا، اکسیجن فری،ایک ارب درخت،ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، ڈیجیٹل پاکستان، کھیل کے میدان، پارکس، قانون کا بول بالا، ھر ناکہ فوج کا ناکہ، پولیس ختم،سستا علاج، فری دستر خوان، بغیر کام کے تنخواہ، دعاوں سے کشمیر آزاد،امن کی دعا، ریاست مدینہ کی دعا، دنیا پر مسلمانوں کی حکومت، سب ایجادات مسلمانوں کی ھیں، مسلمان دین کے مطابق چلیں۔ مجھے کوئی جگا دے پلیز خواب میری برداشت سے باھر ھو رھا ھے ۔ میرے خواب آپ لے لو مجھے کچھ پیسے دے دو۔

Prev جگ ہنسائی
Next بلوے

Comments are closed.