خواب

خواب
تحریر محمد اظہر حفیظ

خواب ھم دیکھتے ھیں اور اس کی تعبیر ھم یوسف علیہ السلام کے خوابوں میں ڈھونڈتے ہیں۔
اس پر بہت سی کتب چھپ چکی ھیں خوابوں کی تعبیر۔
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ خواب جب میرے ھیں تو کوئی دوسرا تعبیر کیسے بتا سکتا ھے اس کی تعبیر بھی مجھے ھی بتانی چاھیئے۔ کچھ دوست سیاسی خواب دیکھتے ھیں کچھ دنیاوی خواب دیکھتے ھیں اورکچھ بہت ھی پاکباز ھیں وہ دینوی خواب دیکھتے ھیں۔ اور پھر اس کی تعبیر جاننے کی کوشش شروع کر دیتے ھیں۔
کچھ خواب علامہ اقبال صاحب کے تھے اور کچھ قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کے ۔ ھم نے انکے خوابوں کو انکی تعبیر تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی۔
جس جس نے اس ملک کے بارے میں سوچا ھم نے اس کی تعبیر تک اسے پہنچا کر چھوڑا۔
خواب اس دیوانے کے بھی بہت ھیں ۔ پر میں سوتا ذرا کم ھوں اس لیئے مکمل دیکھ ھی نہیں پاتا۔ اور نہ ھی انکو پورا کر پاتا ھوں ۔ کچھ عقلمندوں کا کہنا ھے خواب پورے کرنے کیلئے جاگنا پڑھتا ھے پر میرا یہ خیال ھے کہ پہلے خواب تو پورا دیکھ لو پھر اس کو جاگ کر پورا کر لینا۔ ھمارے خواب بھی ادھورے ھیں اور انکی تعبیریں بھی ادھوری۔
میٹرو بس سروس راولپنڈی اسلام آباد بنی تو بہت سے لوگ مخالف تھے اور بہت سے حق میں۔ میں اقراء یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا علامہ طاہرالقادری صاحب کے دھرنے کی وجہ سے میٹرو بس سروس بند کرنا پڑی تو پہلی دفعہ طلباء و طالبات کو بولتے سنا ۔ پوچھا کیا ھوا کہنے لگے سر ھم مہینے کا دس سے بارہ ھزار ٹیکسی اور وین والوں کو دیتے تھے جب سے میٹرو آئی ھے 800 روپے خرچہ ھوتا ھے آرام سے آجاتے ھیں والدین کو بھی سہولت ھوگئی ھے اب تین دن سے بند ھے تو پتہ چلا یہ کتنی بڑی نعمت ھے۔
ھم ایک عجیب قوم ھیں کبھی بھی کوئی سہولت ختم ھونے سے پہلے ھمیں اسکی اچھائی کا اندازہ نہیں ھوتا۔ میری بیٹی کے کالج میں فنکشن تھا بسیں دیر سے چلتی ھیں اور وہ واپسی پر میٹرو پر آجاتی ھے میں یا میرا بھائی گھر کے پاس سے اسے لے لیتے ھیں بھائی کہنے لگا یار یہ کتنی اچھی اور محفوظ سہولت ھے جوان بچیاں آرام سے اپنے گھروں تک پہنچ جاتی ھیں ھمیں کبھی احساس ھی نہیں ھوا۔
شکریہ گورنمنٹ آف پاکستان ایسی سہولیات دینے کا۔
ھمارا ملک بہت غریب ھے پر ھمارے راھنما وہ سیاسی ھوں یا غیر سیاسی،سرکاری ھوں یا غیر سرکاری وہ روز بروز امیر سے امیر ھوتے جارھے ھیں اور عوام غریب سے غریب تر۔
میں محمد اظہر حفیظ پچھلے پچیس سال سے ٹیکس ادا کر رھا ھوں پر مجھے یہ نہیں پتہ کہ میں کیوں ادا کر رھا ھوں۔
میری تنخواہ مجھے ٹیکس کاٹ کر دی جاتی ھے، میں پھر پیٹرول پر ٹیکس دیتا ھوں، کھانا کھانے پر ٹیکس، بجلی استعمال پر ٹیکس، گیس استعمال پر ٹیکس،سڑک استعمال پر ٹیکس،گاڑی کا ٹیکس، اشیاء خوردونوش پر ٹیکس، سینما پر ٹیکس،دوائیوں پر ٹیکس،پانی پر ٹیکس،پل پار کرنے کا ٹیکس اب صرف ھوا ھی رہ گئی ھے جو ٹیکس سے پاک ھے۔
مجھے روز خواب دکھائے جاتے ھیں ھم اسکو فلاحی ریاست بنائیں گے۔
یہ ریاست مدینہ کا نمونہ بنے گی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور کی مثالیں دی جاتی ھیں ۔
مجھے تو کسی بھی حکمران میں فرق نظر نہیں آتا۔ وہ فوجی ھو یا سیاسی۔ سب خواب دکھاتے ھیں پر سونے نہیں دیتے۔
ھمارے وزیر اعظم صاحب بہت سچے اور کھرے انسان ھیں جو کہتے ھیں پورا کرتے ھیں مجھے یاد ھے انھوں نے جب کہا تھا میں تم سب کو رولاوں گا الحمدللہ سچ کر دکھایا۔جس طرف بھی دیکھو عوام روتے ھوئے نظر آتے ھیں۔ اللہ انکو سلامت رکھیں امین۔
ڈاکٹر عاصم صاحب علاج کیلئے باھر کے ملک چلے جاتے ھیں۔ نواز شریف صاحب کو کبھی سزا کے طور پر سعودی عرب بھیج دیا جاتا ھے اور کبھی علاج کیلئے جیل سے باھر۔ یہ کیسی ریاست مدینہ ھے جہاں امیر اور غریب کے سزا و جزا کے پیمانے مختلف ھیں۔
ھمیں ھمارے خواب دیکھنے دو، ھمیں جینے دو ، ھمیں مرنے سے پہلے جنت نہیں چاھیئے۔ ھمیں جھوٹے خواب مت دکھائے۔ بس سچ بتائے۔
بحریہ ٹاون،ڈی ایچ اے،ایڈن گارڈن کیوں مختلف ھیں ھمارے گھروں سے۔
بنی گالہ اگر ناجائز ھے تو سب کے گھر کیوں نہیں گرائے گئے۔ سپریم کورٹ کون ھوتی ھے لیگل کی اجازتیں دینے والی۔
نیشنل اسمبلی کیفیٹریا کے ریٹس باقی پاکستان میں کیوں رائج نہیں ھوتے۔ اگر خواب پورے نہیں کرسکتے تو دکھاتے کیوں ھو۔
مدینہ ھمارے لیئےبہت محترم ھے اسکا نام لیکر ھم سے جھوٹ مت بولئے ۔
سچ بتائیں بے شک ھمارے خواب آپ رکھ لیں۔ وہ ڈیم اور اسکا فنڈ کہاں گیا ۔ وہ چیف جسٹس کہاں گیا۔ وہ توڈیم کے تو اشتہار بھی ساتھ ھی لے گیا۔ قرض اتارو ملک سنوارو کے پیسے کدھر ھیں۔
کوئی تو حساب دے کوئی تو جواب دے
ھزارہ والوں کا صوبہ کدھر گیا سرائیکی والوں کا صوبہ کدھر گیا ۔
چلو کھولو کتاب “خوابوں کی تعبیر” دیکھتے ھیں کس خواب کی کیا تعبیر ھے۔
یہ کیا ھمارے خواب تو اس کتاب میں درج ھی نہیں ھیں ۔
ھم کہاں تلاش کریں اپنے خواب اور انکی تعبیریں۔ کوئی تو راھنمائی کرے ۔

Prev دکھ ،درد ، تکلیف
Next گرنا، اٹھنا اور اگے بڑھنا

Comments are closed.