رضیہ سلطانہ

رضیہ سلطانہ

تحریر محمد اظہر حفیظ

رضیہ سلطانہ ایک تاریخی بہادر خاتون کا کردار تھا، لیکن یہ سب خوبیاں ، بہادر، حوصلہ مند، خوبصورت، خوب سیرت، خیال رکھنے والی، درد آشنا، شکر گزار خاتون زندگی میں دیکھی ھے تو وہ میری خالہ رضیہ سلطانہ تھیں، میرے نانا جی میاں محمد علی صاحب نے شاید خالہ جی کا نام رضیہ سلطانہ کے اسی تاریخی کردار کو مدنظر رکھ کر ھی رکھا تھا، ایسی بہادر خاتون زندگی میں شاید ھی میرے ذھن میں کوئی اور ھو، ساری زندگی مشکلات کا مقابلہ حوصلے سے کرتے دیکھا، میرے امی جی اور باقی بہن بھائی بہت چھوٹے تھے تو 1943 میں نانی جان کا انتقال ھوگیا آٹھ سال کی عمر سے ھی خالہ جی نے سب بہن بھائیوں کو سنبھالنا شروع کردیا، امی جی بتاتی ھیں کہ جب پاکستان ھجرت کرکے آئے تو بہت بارشیں ھوئیں سیلاب آگئے، اکثر سیلاب میں بہہ کر آئے سانپ گھر میں داخل ھوجاتے تو خالہ خود ھی ڈنڈے سے انکو مار دیتیں نہ کسی کو مدد کیلئے پکارتیں شاید خالہ کا یہ ٹریننگ پیریڈ تھا باقی زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے، خالہ جی کے ماشاءاللہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ھیں، جب سب سے بڑے بیٹے آٹھویں جماعت میں تھے اور سب سے چھوٹی بیٹی کچھ ماہ کی تھیں اس وقت خالو جی کا طویل بیماری کے بعد انتقال ھوگیا، خالہ جی باقی زندگی کے 52 سال بہت حوصلہ اور بہادری کے ساتھ گزارے سب بچوں کو پڑھایا بھی ھنر بھی سکھائے، اور دیندار بھی بنایا، خالہ جی 95 گ ب گہری نزد گوجرہ میں رھتیں تھیں ھم اکثر انکے پاس جاتے تھے بہت بڑا گھر تھا اس کے اندر رسی سے چلنے والے پنکھے لگے ھوتے تھے جو ھال نما کمروں کو ھوا مہیا کرتے تھے اور بھائی باری باری اسکو چلانے میں مددکرتے تھے ھم نے پہلی دفعہ مٹی کے تیل کے لیمپ اور رسی سے چلنے والے پنکھے خالہ جی کے گھر ھی دیکھے مزے دار سرسوں کے ساگ کا خالہ جی کی وفات کے بعد سوچنا بھی شاید ممکن ھو، خالہ جی بڑی باقاعدگی سب کو ساگ کے بڑے دیگچے بنا کر بھیجتیں تھیں، اور ھم اس کے پیکٹ بنا کر فریز کر لیتے اور سارا سال ساگ کا لطف لیتے رھتے اور دوست احباب کو بھی پہنچاتے اور ختم ھونے سے پہلے دوبارہ پہنچ جاتا، فیصل آباد شہر میں آنے کے باوجود ساگ کی ترسیل باقاعدگی سے اس عید تک جاری رھی، خالہ جی نے سب بچے پالے ان کی شادیاں کی فیصل آباد میں گھر بنایا اور زندگی میں کچھ ٹھراو اور چین آیا ھی تھا کہ خالہ جی کی بڑی بیٹی کے شوہر 2008 میں انتقال کر گئے اب خالہ جی کی زندگی کا محور باجی اور انکے پانچ بچے ھوگئے، دوسری طرف ایک بیٹے کے ھاں تین سپیشل بیٹیوں کی پیدائش نے خالہ جی کی مصروفیات میں مزید اضافہ کردیا خالہ جی زندگی کے ان امتحانوں سے کبھی پریشان نظر نہ آئیں مسکراتی رھتیں ھر آئے گئے کو دے دلا کر بھیجنا خالہ جی کی عادت تھی مجھے یاد ھے جب ھم گاوں بھی جاتے تو کبھی کپاس، کبھی گدے کبھی رضائیاں خالہ جی نے ساتھ دے کر بھیجنا، پہلے چھوٹی خالہ فوت ھوئیں پھر ھماری والدہ بھی2011 میں فوت ھوگئیں جب جاتے گلے لگاتیں اور بہت پیار کرتیں واپسی پر ھم سب کو فردا فردا پیسے دیتیں ایک دفعہ ابا جی بول پڑے آپا جی کی کردے او، خالہ بہت دبنگ خاتون تھیں کہنے لگیں حفیظ صاحب تسی وچ نہ بولو، اور پیسے دے کر ھی بھیجا، 2010 میں بڑے بیٹے کی بیوی میری خالہ زاد بہن بھی انتقال کر گئیں اب خالہ اپنے گھر مدینہ ٹاون سے نعمت کالونی بڑے بیٹے کے گھر شفٹ ھوگئیں اور ان کے تین بچوں کی دیکھ بھال شروع کردی بھائی اپنی بیٹیاں دفتر جاتے خالہ جی پاس چھوڑ جاتے یہ مسائل کا سامنا خالہ جی تن تنہا کرتیں اب بڑے بیٹے کے بچے خالہ جی کی زندگی تھے خالہ جی انکی دادی تھیں لیکن انکی بیٹی کہنے لگی انکل امی سب کی دادی اور نانی تھیں پر میری تو ماں ھی تھیں مجھے پالا بڑا کیا شادی کی، اس لئے مجھے تو آج ایسے لگ رھا ھے میری امی فوت ھوئیں ھیں دادی نہیں، بڑے پوتے کی زندگی میں کچھ مسائل آئے اور اسکی علیحدگی ھوگئی اب اس کے دو بچے بھی خالہ جی کی ذمہ داری بن گئے، میری جب آخری ملاقات ھوئی خالہ جی سے تو کہنے لگی اظہر بس ھن میری ھمت جواب دے گئی ھے زندگی سے لڑتے لڑتے، خالہ جی کئی دفعہ موت کو چھو کر واپس آئیں اس دفعہ بھی خالہ جی نے ماشاءاللہ اٹھارہ روزے رکھے کمزوری زیادہ ھونے کی وجہ سے عید سے چند دن پہلے انکو ھسپتال داخل کرانا پڑا اور کسی کو اطلاع اس لئے نہیں دی گئی کہ خالہ جی کے حوصلے سے آگے سب بیماریاں فیل ھو جاتیں تھیں اس لئے ان کے بیٹوں کے بقول یار سانوں تے پتہ سی امی نے ٹھیک ھوجانا پر انکی پوتی کا میسج میری بھتیجی کو آیا کہ میری امی کیلئے دعا کریں جس سے ھمیں اطلاع ھوئی میری بھابھی خالہ رضیہ کی چھوٹی بیٹی ھیں تو ھمیں پوتی کے میسج سے اندازہ ھوا کہ معاملہ سیریس ھے اور عید سے اگلے دن خالہ جی اس دنیا سے پردہ کر گئیں ، خالہ جی ماشاءاللہ سے پڑدادی اور پڑنانی بن چکیں تھیں، خالہ جی چند دن سے بچوں سے پوچھ رھی تھیں جمعہ کس دن ھے بچے امی جی کیا بات ھے جمعہ کو۔ تو کہنے لگیں میرے میاں جی نے مجھے لینے آنا ھے اور جمعہ والے دن ھی خالہ جی اس دنیا سے 86 سال کی عمر میں چلی گئیں، سب احباب سے دعا کی درخواست ھے۔ اللہ تعالٰی خالہ جی کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائیں آمین اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں آمین

 

Prev بھولنے کی عادت
Next سڑک

Comments are closed.