ریلیف پیکج

ریلیف پیکج

تحریر محمد اظہر حفیظ

جب موبائل فون کا استعمال شروع کیا تو پیکج کا لفظ پہلی دفعہ سنا۔ غالبا سال 1994 کا دور تھا ۔ مختلف طرح کے پیکج تھے ۔ پانچ سو روپے مہینہ سے چار ھزار مہینہ تک حیران کن طور پر جس پیکج پر بھی جاو بل بارہ ھزار ھی آتا تھا۔ پھر نئی کمپنیاں آنا شروع ھوگئی اور پیکج 99 روپے کا متعارف ھوگیا۔ بڑا تعریفیں سنیں اور اس کمپنی پر کنکشن تبدیل کرلیا۔ کنکشن فون پر ھی تبدیل ھوتا تھا سم کا زمانہ نہ تھا۔ پہلا بل آیا تو بل بارہ ھزار ھی تھا۔ بڑا عجیب لگا کہ یہ کیا بات ھوئی ۔ کچھ اسوقت کے موبائل ماہرین سے بات ھوئی تو مسکرانے لگے کہ موبائل کمپنیاں لاکھوں روپے کے عوض ایسے اقتصادی ماہرین کو ملازم رکھتی ھیں۔ جو اسے گھما پھرا کر پیکج بناتے ھیں اور بات ایک ھی ھوتی ھے۔ بس لوگ پھنستے چلے جاتے ھیں۔ بلکل اسی طرح آجکل کی حکومتیں ایسے ماہرین کو ملازم، کنسلٹنٹ، مشیر، وزیر رکھتی ھے جو ایسے پیکج بناتے ھیں کہ عوام کو چکرا کر رکھ دیتے ھیں۔ کوئی وزیراعظم کی نوجوان سبزی کی دوکان بنا کر کھڑا ھے اور کوئی پھل کی دوکان۔ قیمتیں واقعی وہ بیان کرتے ھیں جو دنیا میں سستی ترین ھیں۔

کوئی سیاستدان آتا ھے اور تیس ھزار ماہانہ پر دوسو بندے بھرتی کر لیتا ھے۔ جو کہ تقریبا ساٹھ لاکھ روپے ماہانہ بنتے ھیں اگلی حکومت آتی ھے اور اس زیادتی اور ظلم کو بند کرتی ھے دوسو بندوں کو نوکری سے نکالتی ھے اور دس بندے چھ لاکھ مہینہ پیکج پر رکھ لیتی ھے۔ خرچہ پھر وھی ساٹھ لاکھ مہینہ۔ اب وہ پچھلی حکومت کے ظلم گنواتی ھے کہ انھوں نے دوسو بندہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے اور ھم نے صرف دس بندے بھرتی کئے اور ناجائز بھرتیوں پر پابندی لگا دی ھے۔ اور بہت سارے احسن اقدامات کئے جاتے ھیں۔ دس لاکھ سے تیس لاکھ ماہانہ پر لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ھے کہ جناب پینشن حکومت پر بوجھ ھے سرکاری ملازمین کی پینشن ختم کی جائے۔ یہ کنسلٹنٹ زیادہ تر تین سے پانچ سال کیلئے آتے ھیں اور اگر انکی اس دورانیہ کی تنخواہ کا حساب لگایا جائے تو انکی تین سے پانچ سال کی تنخواہ عام سرکاری ملازمین کی پچیس سے تیس سال کی تنخواہ اور پینشن سے کہیں زیادہ بنتی ھے۔ اس لئے انکا فرض ھے ان بنیادی سہولیات کو ختم کردیں۔

ابھی گورنمنٹ آف پاکستان نے بہت سے مشیر رکھے ھوئے ھیں جو بنے بنائے دستر خوانوں کو سرکاری دستر خوان بنانے کا مشورہ دیتے ھیں اور سیلانی فری دستر خوان سمارٹ دستر خان بن جاتا ھے اس کی تشہیر پر جو پیسہ لگایا جاتا ھے اگر غریب پر لگا دیا جائے تو شاید غربت کچھ کم ھوجائے۔ گورنمنٹ نے ماشاءاللہ عوام کیلئے مفت رھائش گاھیں بنائیں ھیں اور اس عظیم کام کیلئے ایک بھی عمارت تعمیر نہیں کی گئی بلکہ پہلے سے موجود پارکنگ پلازے اور مختلف جگہوں کو سرائے کا درجہ دے دیا گیا ھے۔

ھمارے کچھ ادارہ اپنے سہولت کنندگان کو گاڑیاں مہیا کرتے ھیں۔ جب کام نکل جاتا ھے تو پتہ چلتا ھے کہ گاڑی بھی واپس نکل گئی ھے۔ گورنمنٹ کے مشیران نے بے شمار عارضی فری دسترخوان اور سرائے بنایئے ھیں جن میں سے کوئی بھی مستقل بندوبست نہیں ھے جیسے ھی حکومت جائے گی ۔ یہ ساری جگہیں بھی خالی ھو جائیں گی اور اصل نام اور شکل میں واپس آجائیں گی۔ آج کل سوشل میڈیا کچھ چینی کے پہاڑ دکھا رھا ھے۔ دیکھیں ذخیرہ اندوزں نے کیا ظلم کر رکھا ھے اور اب چینی ایک سو پچاس کی بجائے نوے روپے کلو ملے گی۔ جو بھی چینی لیکر آتا ھے پتہ چلتا ھے یہ درآمد کی گئی چقندر کی چینی ھے مقامی چینی ھے ھی نہیں یہ مٹھاس میں بھی کم ھے۔ یہ کیا ریلیف پیکج ھیں۔

پہلی حکومتیں چور تھیں بلکل تھیں۔ چوری معلوم کرنے کا بہت آسان سا طریقہ ھے جتنا پیسہ اس حکومت نے استعمال کیا اور آپ کے خیال میں اس نے اس میں سے کتنے کے پراجیکٹ کئے جمع تفریق کریں تو رقم سامنے آجائے گی کسی لمبے چوڑے حساب کتاب کی ضرورت ھی نہیں ھے۔ اب آپ کے مشیر کہتے ھیں۔مثال کے طور پر دس ھزار ارب پچھلی حکومت نے خرچ کئے اور اس میں سے پچاس ھزار ارب روپے چوری کر لئے۔ یہ کونسا حساب ھے۔ اس اصل رقم پر لائیں سارے پرانے حکمران جیل میں چلے جائیں گے۔ اب آپ دیکھیں آپ نے کتنے پیسے استعمال کئے اور اس کے عوض کتنے پراجیکٹس مکمل ھوئے۔ کہیں یہ سارا بجٹ پیکج بنانے والوں اور اشتہارات پر تو خرچ نہیں ھورھا۔ میں شکر الحمدللہ کوئی اقتصادی ماہرین نہیں ھوں ۔ پر مجھے اتنا پتہ ھے میرا جو خرچہ ھے وہ میری آمدن سے کم ھی ھے۔

پھر ھر حکومت وقت کو کیوں پتہ نہیں چلتا۔ کل ٹماٹر الحمدللہ سبزی منڈی میں دوسو روپے کلو تھے ۔ اور دنیا میں سب سے سستے تھے پھر ھم نے ٹماٹر نہ کھانے کا پروگرام بنایا اور ایک سو پچاس روپے کلو کے حساب سے دھی لیکر استعمال کرلیا۔ اب جب تک ٹماٹر سستا نہیں ھوجاتا یا دھی مزید مہنگا نہیں ھوجاتا ھم ٹماٹر کا بائیکاٹ کریں گے۔ کچھ بے شرم یہ والے پیکج بھی ڈیزائن کرتے ھیں۔

سیلانی والے بہت ظلم کر رھے ھیں جو چندہ اکٹھا کرکے فری کھانا مہیا کرتے ھیں اگر ان پر گورنمنٹ کا نام لگانے کی بجائے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی لگا دی جائے تو تقریبا ستائیس فیصد انکم چندے کے پیسوں سے بھی حاصل کی جاسکتی ھے۔ رحم کیجئے پیکج اور پیکج والوں سے ھماری جان آزاد کیجئے۔ مہنگائی پر قابو پانے کا ایک مناسب اقدام خود بخود ھوجائے گا۔ ابھی ایک پیکج گیارہ گیارہ کے نام سے چل رھا ھے اصل میں وہ نو دو گیارہ ھے۔ ڈسکاؤنٹ والی قیمت بازار کی قیمت سے پھر بھی بلند ھے۔ کیا پیکج ھے اور کیا پیکج پر رکھے ماہرین ھیں۔

ورلڈ بینک بھی کچھ اسی طرح کے ریلیف پیکج ھمیں اکثر دیتا رھتا ھے۔ جن کے آنے سے آٹا، بجلی، گیس، پیٹرول، مہنگا ھوتا جارھا ھے یہ کیسا ریلیف ھے یہ کیسا پیکج ھے۔ اور یہ بھی دیکھئے جو یہ پیکج لائے ھیں انکا اپنا کیا پیکج ھے۔ وہ اقتصادیات کا وزیر ھو یا سٹیٹ بنک آف پاکستان کا گورنر اور انکی ساتھ لائی گئی عقلمند آقتصادی ٹیمیں۔

Prev احساس کے نشتر
Next پت جھڑ کے موسم

Comments are closed.