زندگی میتوں پر روتی ھے

زندگی میتوں پر روتی ھے
تحریر محمد اظہر حفیظ

پہلے ھمیں عالمی سطی پر کرونا وائرس کا مقابلہ کرنا ھے ، پھر ھمیں ملکی سطح پر اس کا مقابلہ کرنا ھے۔ کیونکہ انسان چائنہ میں جاں بحق ھوں، اٹلی میں جاں بحق ھوں، امریکہ میں جاں بحق ھوں، ایران میں جاں بحق ھوں، سعودی عرب میں جاں بحق ھوں یا پاکستان میں۔ سب انسان ھی ھیں اور ھمیں بطور انسان انسان کے جانے کا، انسان کی موت کا دکھ ھونا چاھیئے، سب ممالک اپنے اور دوسرے ممالک کا سوچ رھے ھیں اور ھم نے ایک نئی گیم وار شروع کرلی ھے، یہ وباء ایران سے آئی، یہ وباء سعودیہ سے آئی، یہ وباء تبلیغی جماعت والوں سے آئی۔ کیا یہ موقع ھے ایسی لڑائیاں لڑنے کا ، سوچنے کا، کرونا کا جو بھی مریض ھے، وہ چاھے مسلم ھو یا غیر مسلم، سنی ھو، یا دیوبندی، اھلحدیث ھو یا شعیہ یہ سب ھمارے اپنے ھیں اور ھمیں ان سب کو برابر دیکھنا ھے۔ اور ان کا برابر علاج کرنا ھے اور تمام سہولیات برابر فراھم کرنا ھیں، اقوام عالم مشکل دور سے گزر رھی ھیں، ھم سب کو ملکر اس مشکل وقت کو گزارنا ھے، میری آپ سب سے درخواست ھے اس وقت ان سب مسائل سے اجتناب کریں۔ ابھی امن یا جنگ کا مسئلہ تو ھے ھی نہیں بس کرونا وائرس کا مسئلہ ھے اور اس کا سب نے گھر بیٹھ کر مقابلہ کرنا ھے باھر نکلیں گے تو ھار جائیں گے۔
عقل دنگ رہ جاتی ھے جب لوگ باجماعت نماز، نماز جمعہ، نماز جنازہ، حج، عمرہ، زیارات، عرس، محرم کے ماتمی جلوسوں، ربیع الاول کے جلوسوں، کرسمس، ایسٹر، ھولی وغیرہ کا ذکر کرکے لڑائی جھگڑے کر رھے ھیں ، اللہ کا واسطہ ھے ایک ھو جاو، ایک دوسرے کی مدد کرو، اس وباء سے بچ گئے تو باقی معاملات یہیں ھیں،
بہت سے محکمے ان سارے حالات کے باوجود ڈیوٹی پر ھیں، سلام ھے ان سب اداروں کو، پیرا میڈیکل سٹاف، حفاظتی ادارے، کمیونیکیشن کے ادارے، میڈیا ھاوسز، ملکی و صوبائی ایڈمنسٹریشن، سوشل ورکز، انسان دوست جو چوبیس گھنٹے عملی طور پر اپنی زندگیاں داو پر لگا کر ھماری حفاظت اور خدمت پر مامور ھیں۔ ڈاکٹرز،میل فی میل نرسز، لیبارٹری سٹاف، ایمبولینسز، 1122 ،1166 کا سٹاف، حفاظتی ادارے جو براہ راست کرونا وائرس کے مریضوں کا سامنا کرتے ھیں، انکی ھمت کو داد دینا ضروری ھے انکو 21 توپوں کی سلامی دی جانی چاھیئے۔ ھمارے وسائل بہت محدود ھیں پر جذبے بہت بلند ھے، بے شک ھم سب آپ پر فخر کرتے ھیں، چائنہ ابھی خود اس وباء کا شکار ھوا اور اس کا اس کھلے دل سے ھماری مدد کرنا بھی قابل تحسین ھے، ھم سب مشکل میں ھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے اور شیئر کرنے سے پہلے ایک دفعہ اس کو ضرور پڑھ لیا کریں مہربانی ھوگی، اگر کرونا وائرس کا علاج، چائے کی پتی، ادرک، قہوہ، گرم پانی، گرم چیزیں، کوئی ھومیو پیتھک کی دوائی، دھوپ میں بیٹھنا، کلونجی وغیرہ میں سے ثابت ھوتا تو تمام ممالک فوری طور پر اس کا باضابطہ اعلان کر دیتے۔ جب اس کا علاج گھر میں رھنا ھی ھے تو رھیں۔ کچھ دوست اس حکومت کو پچھلی حکومت کو کوستے ھیں اگر یہ کرلیتے وہ کرلیتے تو یہ ھو جاتا، وباء 2019 میں آئی ھے اس کے حفاظتی اقدامات 1947 میں کیسے کر لیتے، کونسا ملک ھے چائنہ سے لیکر امریکہ تک جو اس بیماری کی تیاری کرکے بیٹھے ھوئے تھے، 2005 کا زلزلہ آیا بہت تباہ کاری ھوئی تو ھم اگلے زلزلے کے انتظامات کرنے لگ گئے، گھر بیم والے، پلر والے بنانے شروع کر دیے، پھر زلزلہ نہیں آیا تو سیلاب آگیا اور سارا ملک بہہ گیا ھم نے سیلاب کے انتظامات کو کوسنا شروع کردیا، اور اگلے سیلاب کے انتظامات کرنا شروع کردیئے، ابھی ٹڈی دل کا حملہ ھوا ساری فصلیں برباد ھوگیئں جہاں سے یہ گزرتیں تھیں آسمان کالا ھوجاتا تھا میں نے ڈیرہ غازی خان کے پاس سے انکو گزرتے دیکھا۔ سپرے شروع ھوگئے اور اب ھم کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ وائرس کا بھی شکار ھیں، صوبائی منافرت کا بھی شکار ھیں، لبرل اور کنزرویٹو گروپس کا بھی شکار ھیں ، تعلیم اور جہالت کا بھی شکار ھیں، تمیز اور بدتمیزی کا بھی شکار ھیں، صحافتی اور غیر صحافتی دھشت گردی کا بھی شکار ھیں، ھم نے ریاست مدینہ بھی بنانی ھے اور عاشق مزاج افسران بھی نیب میں لگانے ھیں، سفارشی بھرتیاں بھی کرنی ھیں اور میرٹ کا رونا بھی رونا ھے، زندگی میتوں پر روتی ھے اسکو نہیں پتہ میت کون ھے، بس دھرتی بانجھ ھوتی جاتی ھے اور ھو رھی ھے ۔ مان لیں ھم بے بس ھیں اور طاقت صرف اور صرف رب کی ذات کے پاس ھے۔ توبہ کریں اور قدرتی آفات سے پناہ حاصل کریں۔ اللہ ھماری مشکلیں آسان فرمائیں، ھماری دعائیں اور معافیاں قبول فرمائیں. امین

Prev احتیاط زندگی ھے۔
Next اپنا حصہ مانگیں نہیں ادا کریں

Comments are closed.