سب اچھا ھورھا ھے

سب اچھا ھورھا ھے

تحریر محمد اظہر حفیظ

جو ھو رھا ھے سب اچھا ھورھا ھے، آج میں محسوس کر رھا ھوں کہ میں صابر بھی ھوں اور شاکر بھی،

ٹی وی چینلز دیکھنا چھوڑ دیئے ھیں پر یہ ظالم سوشل میڈیا جان نہیں چھوڑتا، ابھی ایک خبر سے محظوظ ھورھا تھا کہ ایک ھفتہ تک مزدوری نہ ملنے پر باپ نے پانچ بچے نہر میں پھینک دیئے اور اس کو پولیس نے گرفتار کرلیا مزا تو تب آنا تھا جب یہ خود بھی کود جاتا، کتنا اچھا کیا کہ اس نے پانچ بچوں کو نہر میں پھینک کر اس دنیا کے مظالم سے، بھوک سے، لاچاری سے، غربت سے نجانے کتنی تکلیفوں سے بچا لیا، دوسری طرف الحمدللہ پانچ غریبوں کی اموات سے شرح غربت پہلے سے کم ھوگئی ھے، اور ھمارا گراف برائے ترقی بہتر ھواھے، اگر کچھ والدین حکومت وقت کا ساتھ دیں تو ھم غربت کو مکمل طور پر ختم کرسکتے ھیں، اور اس سے آبادی بھی کنٹرول ھوجائے گی، کبھی تو اس ریاست مدینہ کیلئے عوام بھی سوچے یا یہ کام صرف اھل اقتدار کا ھی ھے، آج ایک ٹیچنگ ھسپتال میں آکسیجن ختم ھوجانے پر کچھ مریض ھلاک ھوگئے، چلو اچھا ھے یہ بچی ھوئی آکسیجن باقی مریضوں کے کام آجائے گی، اس طرح بھی آبادی کنٹرول ھوئی اگر یہ مریض زندہ رھتے تو نجانے کتنے لوگوں کو اور ان سے کرونا ھوجاتا، بے شک احتیاط ھی زندگی ھے، جب مجھے کرونا مثبت ھوا تو شکیل اعوان بھائی سے آکسیجن سلنڈر لے آیا، آکسیمیٹر خرید لیا، نیبولائزر پہلے ھی گھر میں تھا جب ھم ٹھیک ھوئے تو تنویر اصغر بھائی کی فیملی کرونا مثبت ھوگئی امدادی اشیاء انکو منتقل کردیں، ایک دوست کا فون آیا کہ آکسیجن سلنڈر چاھیئے ایک دن کیلئے ماموں کو ایک ھسپتال سے دوسرے ھسپتال منتقل کرنا ھے عرض کیا کہ ھمارا والا تو زیر استعمال ھے کچھ کرتا ھوں، سلنڈر کی قیمت پانچ ھزار روپے ھے فورا میڈیکل سٹور والے دوست کو فون کیا بھائی ایک آکسیجن سلنڈر چاھیئے، جواب اچھا تھا آپ کے پاس تو ھے جسکو چاھیئے وہ افورڈ کرلیں گے، آپ اس بات کو چھوڑیں میں لے دیتا ھوں، بھائی جان سلنڈر 65000 کا ھوگیا ھے اور آکسیجن بھی نہیں مل رھی، صبح بتاوں گا، میں نے شکرالحمدللہ کہا کہ ھم ریاست مدینہ کے رہائشی ھیں 5000 والا سلنڈر اب 65000 کا ھوگیا ھے خریدنے سے بہتر ھے، آبادی کو ھی کنٹرول کیاجائے، تمام سرکاری ھسپتال جہاں کرونا مریضوں کے علاج کی سہولت ھے مریضوں سے بھرے ھوئے ھیں اور پرائیویٹ ھسپتال دس لاکھ ایڈونس طلب کرتے ھیں، اس ملک میں کتنے لوگ ھیں جن کے پاس دس لاکھ کیش ھے اور ملک پچھلے کئی ماہ سے لاک ڈاون کا شکار ھے، لیکن خوشی کی بات یہ ھے کہ ھماری آبادی اور غربت کنٹرول ھورھی ھے اور ھم خط غربت سے اوپر آرھے ھیں، سوئی گیس ایک سہولت ھے اگر آپ کے علاقے میں کوئی کمپریسر لگا کر گیس کا پریشر پورا نہیں کررھا، جس گلی میں بھی گیس کنکشن پر کمپریسر لگ جائے باقی اھل محلہ سلنڈر پر شفٹ ھوجاتے ھیں ، ان کی نشاندہی اور پکڑے کا بہت آسان طریقہ ھے جن کے بل پورے آرھے ھیں یا گیس کا استعمال زیادہ ھے گرفتار کرلیں کمپریسر لگا ھوا ھے اس کے بغیر تقریبا 10% سے 30% تک گیس آتی ھے اور اسی مناسبت سے بل بھی کم آتا ھے، راولپنڈی اسلام آباد سرد علاقے ھیں محکمہ سوئی گیس کو فوری طور پر کاروائی کرنی چاھیئے۔ تاکہ آبادی میں مزید کنٹرول سردی سے نہ شروع ھوجائے، سردی سے مرنا بھی مرنا ھی ھے پر دانت برررررر بررررر بہت کرتے ھیں، اس طرح مرتے ھوئے بندہ ذرا سا بڑا تو لگتا ھوگا بجائے اللہ توبہ کرنے کے وہ بررررر بررررر کرے، شکر الحمدللہ ھم پر صادق اور امین حکمران آگئے ھیں، بس یہی سوچ سوچ کر جئے جارھے ھیں، جو بچے نہر میں پھینک رھے ھیں وہ شاید سوشل میڈیا پر نہیں ھیں، حکومت کے انتہائی اچھے اقدامات میں سے ایک اقدام بغیر فیس والے سرکاری سکولوں کی آن لائن کلاسز ھیں، جہاں کتابیں مفت ھیں، فیس معاف ھے اور کلاسز آن لائن ھیں، گھبرایا تو میں بلکل بھی نہیں ھوں پر چار بچوں کا باپ ھوں جب یہ سوچتا ھوں کہ اس باپ پر کیا گزری ھوگی جس نے پانچ لخت جگر نہر میں پھینکے ھوں گے تو بس روتے ھوئے شرمسار ھوجاتا ھوں، گھبراتا پھر بھی نہیں ھوں، اتنے کی تو اجازت دے دیں نئے پاکستان میں۔ سر باقی سب اچھا ھورھا ھے۔ ھر طرف سکون ھے، امن ھے، خوشحالی ھے، مانچسٹر سے کزن کا فون آیا تھا لائلپور دی سنا، بس یہی کہہ پایا پتر تیری سوچ اے ھن تے گھنٹہ گھر وی برج خلیفہ تو بلند ھوگیا اے، بس بحریہ ٹاؤن تے ڈی ایچ اے شروع ھون لگا اے، نہر وچ بحری جہاز چلدے نے ، اگر سادی قلفی وی لو تے ھوا چلن نال اسدے اوتے پستہ خود ھی لگ جاندا اے اینی ترقی ھوگئی اے، اوئے بیوقوفا او تے گھوڑے دی لدھ اے قلفی نہ کھائیں، فر بس لائلپور دا ناں فیصل آباد ھوگیا باقی اسی طرح اے،

Prev سب فکر میں ھیں
Next منزلیں سفر کرتی ھیں

Comments are closed.