سوشل میڈیا

سوشل میڈیا
تحریر محمد اظہر حفیظ
میری زندگی سے تحمل ختم ھوگیا تھا پچھلے کچھ ماہ سے میں محسوس کر رھا تھا کہ میری زندگی میں غصہ کچھ زیادہ شامل ھوگیا تھا کوئی گاڑی ھارن دے دے یا لائٹ دے دے غلط کراس کر جائے میں اپنے بس میں نہیں رھتا تھا یہ بات مجھے پسند نہیں تھی۔ میں غور کر رھا تھا مسئلہ کہاں پر ھے۔ فیس بک پر لوگ اندھی پوسٹ لگاتے ھیں زیادہ تر جس کا سر پیر نہیں ھوتا میں پڑھتا تھا اور میرا خون کھول اٹھتا تھا۔
اس الیکشن نے تو عجیب صورتحال کا شکار کر دیا لوگ بلا تحقیق خبر اور ویڈیو لگاتے تھے اور میں کڑھتا رھتا تھا ۔
پھر کچھ دیرینہ دوست بھی اسی بہاو کا شکار ھوگئے اور میں ان سے دور ھوتا چلا گیا پہلے 500 کے قریب دوستوں کو ان فالو کیا پھر 200 کے قریب دوستوں کو انفرینڈ کیا ۔ لیکن سکون پھر بھی کہیں نہ تھا وہ اپنے اندر کی نفرت کسی نہ کسی طرح پہنچانے کا بندوبست جاری رکھے ھوئے تھے بالآخر ایک دن پہلے فیس بک کو چھوڑنے کا سوچا اور 7 دن کیلئے اپنا اکاونٹ بند کرکے آج دن سکون والا گزارا۔
اور فون کے سب لاک بھی کھول دیئے آزادی کا سانس لیا اور محسوس کیا شاید نیا پاکستان بن گیا اس لیئے دوست اتنی محنت کر رھے ھیں ۔
عمران خان صاحب ماشااللہ وزیراعظم بن گئے ھیں اللہ انکو کامیاب کریں اور میرے پاکستان کیلئے اچھا ثابت کریں امین ابھی بہت عرصے بعد ٹی وی دیکھا وزیراعظم صاحب نے 21 رکنی کابینہ کا اعلان کیا جس میں 16 وزیر اور 5 مشیر شامل ھیں اللہ سب کو کامیاب کریں امین اسلام آباد،کے پی کے ، سندھ ، بلوچستان کی حکومتیں بن گئی ھیں اور کل انشاءاللہ پنجاب میں بھی حکومت بن جائے گی اللہ انکو بھی کامیاب کریں امین
لیکن ان 700 لوگوں میں سے کوئی ایک بھی ان میں شامل نہیں جو نفرت کے سوداگر ھیں اور نفرتیں تقسیم کر رھے ھیں ان میں تمام جماعتوں کے لوگ شامل ھیں۔ پھر یہ نفرتوں کے کاروبار کس کے لیئے اور اس کی ضروت کیا اور کیوں۔
میں اب اپنے بچوں کے ساتھ روزانہ بات چیت کرتا ھوں انکو اب بیتی سناتا ھوں اور ان سے کہانیاں سنتا ھوں عائشہ نے ایک کہانی پڑھ کر سنائی فاطمہ نے دوسری اور عبیرہ نے شامو بکرےکی کہانی سنائی یاد آیا ھفتے کو تو اخبار بچوں کا صفحہ نکالتے ھیں اس پر کہانیاں تو تھیں پر لطیفے نہیں تھے شاید اب لوگ مسکرانا نہیں چاھتے۔ اس لئے وہ اخبار نے بھی چھاپنے بند کردیئے ھیں۔ بہت عرصے بعد ھم نے لڈو کھیلی انکو سکول چھوڑا لیا اکیڈیمی چھوڑا اور لیا بڑی بیٹی کو این سی اے کا ٹیسٹ دلوایا اور اس کا 4 گھنٹے انتظار کیا جیسے 29 سال پہلے میرے والد صاحب نے کیا۔ میں پھر 1989 میں چلا گیا ۔بابا آپ آفس چلے جاتے دو دن آپ کالج کے باھر کھڑے رھے 4 گھنٹے۔میری جان میرے ابو جی بھی ایسے ھی کرتے تھے انکی یاد تازہ کی ھے کچھ نیا نہیں کیا۔تمھیں پتہ ھے 4 سال وہ ھر ھفتے اسلام آباد سے لاھور آتے تھے مجھے ملنے اور کبھی ناغہ نہیں کیا ۔ اور اکثر پوچھتے تھےیار کوئی کمی تو نہیں میرا پتر پریشان مت ھونا ۔ بس بتا دینا ۔ جی ابو جی۔ ساتھ کھانا کھاتے بہت مزا کرتے میرے دوستوں کو بھی کھانے پر لے جاتے اور آج بہت دنوں بعد پانچ وقت نماز پڑی مغرب پڑھتے ھوئے تو میں رو ھی پڑھا آج پہلی دفعہ میں نے اپنے اندر اپنے ابو جی کو محسوس کیا ویسا بننا مشکل ھے لیکن میں اب انکی نقل کروں گا اور ویسا بننے کی کوشش کروں گا مجھے وجہ مل گئی جو مجھے ان جیسا بننے سے روکے ھوئے تھی وہ تھا سوشل میڈیا۔
مجھے محبت کرنا ھے محبت بانٹنا ھے جس جس سے لڑا ان سے معافی مانگنا ھے نئے پاکستان میں پرانے طریقے سے داخل ھو رھا ھوں محبتیں لئے نفرتوں کو پیچھے چھوڑ کر۔ اب سوشل میڈیا کو چھوڑیئے سوشل ھو جائیے دوستوں کو گلے لگائیے نہ کہ لائک کیجئے اس عید پر عید منائیے سوشل میڈیا قربان کیجئے۔ عید الضحی کا مزا لیجئے ۔ دوستوں سے گلےملئے گلے شکوے دور کیجئے ممکن ھو تو پھول اور کیک ساتھ لیکر جائیے ورنہ گوشت تو ھے ھی۔ میں تو ایسے نئے پاکستان میں داخل ھوگیا ھوں آپ اپنا بتائیے نیا پاکستان بنائیے۔

Prev چودہ اگست 2018
Next صبر اور حرص

Comments are closed.