شکر الحمدللہ 

شکر الحمدللہ

تحریر فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ
میری زندگی کا سفر 258 رب پھرالہ سے شروع ھوا، ھماری بہت بڑی سیر خالہ اور ماموں کے گھر غلام محمد آباد لائلپور جانا ھوتا تھا یا پھر کبھی کبھار چچا کے گھر حاجی آباد لائلپور،
جب امی یا ابو جی بتاتے کل لائلپور جانا ھے تو بہت سی چیزیں آنکھوں کے سامنے آجاتیں، گھنٹہ گھر، ریل بازار، حبیب بنک، لیکن ڈیزل بس، کی بو سے مجھے الٹی آجاتی تھی اور ابھی شاپر ایجاد نہیں ھوا تھا تو اکثر امی جی کے برقعہ کی شامت آجاتی، لیکن وہ کبھی بھی کچھ نہ کہتیں اور بس، سٹاپ پر اپنا برقعہ دھوتیں اورھم رکشے میں یا بس، میں غلام محمد آباد کی طرف روانہ ھو جاتے، شاھین چوک ایک خالہ اور دو ماموں کی گھر تھے خالہ کے گھر ھی نانا میاں محمد علی رھتے تھے وھیں ھمارا ٹھکانا ھوتا تھا، خالہ کا گھر بہت برکت والا تھا گھر کم ایک میلہ گاہ تھا بہت آنا جانا، سب وھیں اکٹھے ھوتے تھے، کچھ دیر کیلئے ماموں افضل کے ھاں جاتے وہ فورا بیکری سے بسکٹ لینے چلے جاتے ان بسکٹس کی خوشبو مجھے آج بھی یاد ھے پاک بیکری کے بسکٹ اخبار کے بنے لفافے میں ھوتے تھے اور ھمارے ماموں کے گھر ھی صرف ٹیلی فون لگا ھوتا، تھا سب خوشی غمی کی اطلاع وھیں آتی تھی، ساتھ والا گھر ماموں اسلم کا تھا ان کے سب بچے ھم سے بڑے تھے ھارڈ، بال سے کرکٹ کھیلتے تھے اور مجھے بہت اچھے لگتے تھے میری کرکٹ ھارڈ بال کو چھونے پر ھی ختم ھوجاتی تھی خالو بشیر بہت اچھے انسان تھے ان کے پاس اپنے بچوں کے علاوہ بڑی خالہ سرداراں کے بچے بھی رھتے تھے بہت وسیع القلب انسان تھے خالہ سرداراں کے شوھر میاں عبد العزیز ھندوستان سے ھجرت کے وقت راستے میں ھی شہید ھوگئے تھے اور خالو بشیر کے بڑے بھائی تھے اس لیے خالہ سرداراں جو بعد ازاں کچھ عرصے بعد انتقال کر گیئں ان کے بچوں کی پرورش بھی خالہ حفیظاں اور خالو بشیر کے ذمے آئی اس لیے خالو بشیر کے گھر بہت رونق ھوتی تھی گھر چھوٹا تھا لیکن دل بہت وسیع تھے سب سماء جاتے تھے پھر پہلے نانا جی پھر خالو بشیر اللہ پاس چلے گئے اور گھر کا نظام بھائیوں نے سنبھال لیا اور سسٹم اسی طرح چلتا رھا پھر ماموں اکرم پھر، ماموں افضل پھرخالہ شمشاد پھر جو سب سے چھوٹی تھیں اللہ پاس چلیں گئیں اور پھر میری امی جی بھی اللہ پاس چلی گئیں اللہ سب کے لیے آسانیاں کریں امین خالہ حفیظاں ماشاءاللہ 90 سال کی ھیں میری امی کی ھم شکل ھیں اور بہت زندہ دل خاتوں ھے پر ان سے میری جپھی رونے سے شروع ھوتی ھےپھر ھم دونوں دل بھر کر روتے ھیں رونے کے بعد خالہ پوچھتی ھیں وے اظہر تیرا کی حال آ ماں بڑے دناں بعد یاد آئی بس خالہ وقت نہیں ملتا کاکا وقت کڈیا کرو جی خالہ ابھی اگست کے آواخر میں خالہ سرداراں کے بیٹے اور خالہ حفیظاں کے داماد ریاض بھائی کا انتقال ہوگیا ھم سے بہت بڑے تھے تقریباً اٹھائیس سال کا فرق تھا لیکن ان سے دوستی بہت تھی میں چکوال میں تھا جنازہ میں شرکت نہ کر سکا دو دن بعد پہنچا اور پھر خالہ اور خالہ زاد بہنوں سے ملاقات ناقابل بیان تھی دکھ بھی بہت بڑا تھا میری چار کزنز ھیں باجی امتیاز منظور ، باجی عابدہ ریاض،باجی شاھدہ جاوید اور باجی راشدہ طاھر جن میں مجھے ھمیشہ امی نظر آتی ھیں مل کر رو پڑتا ھوں اور یہ بھی ماؤں کی طرح پیار کرتی ھیں باجی عابدہ بھائی ریاض مرحوم کی بیوی ھیں ان سے ملنے کی ھمت نہ تھی کیونکہ بہنوں اور بیٹوں کو میں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا بس سر جھکائے میں تھا اور میری ماؤں جیسی بہن بہت روئے اللہ میری بہن کو صبر دے، امین۔
میں چکوال رات کمرے میں لیٹا سوچ رھا تھا میری امی جی ھمیشہ ریاض بھائی اور نواز بھائی کا، ذکر کرتے رو پڑتیں تھی باؤ، او بہت چھوٹے سن ریاض کوئی چار سال دا، سی تے نواز سال دا ھونا انناں دے ابا جی تہاڈے خالو شہید ھوگئے 1947 وچ بہت مشکلاں نال پالے پانچ بہن بھائی تھے باجی امتیاز کہنے لگی “باؤ مینوں تے اپنے ابا جی دی شکل وی یاد نئیں” باجی بھائیوں سے بڑی ھیں جملہ بہت تکلیف دہ تھا شکر کیا میرے ماں باپ تو میرے بچوں نے بھی دیکھے ھیں،
خیال آیا کیا سماء ھوگا اگلے جہاں نانا جی ماموں خالہ سرداراں خالہ شمشاد خالو جی امی جی اباجی بھائی ریاض باجی فرخندہ سب بیٹھے ھونگے اور ھماری باتیں کر رھے ھونگے بہت عمدہ محفل ھوگی بالکل غلام آباد والے گھر کی طرح میلے کا سماء ھوگا نانا جی پیچھے کون کون رہ گیا کس حال میں ھے خالہ حفیظاں تیرے خالو جی خواب میں آئے تھے وھاں بڑی سی کالونی بنوا رھے سن پوچھا اڈی وڈی کالونی کی کرنی اے کہن لگے سب دے گھر بنوائے نے،
تے اگلے دن ریاض چلا گیا وے اظہر تہجد پڑھ کے دعا کردا چلا گیا، ریاض بھائی کے بچے بہت اچھے ھیں لیکن کسی سے کھل کر مل نہیں سکاوہ میرے بھانجے بھی ھیں بھتیجے بھی مجھ میں ھمت نہیں تھی باجی اور خالہ پاس ھی بیٹھا رھاروتا رھا، پھر نواز بھائی پاس گاؤں گیا افسوس کیا، اور واپسی پر کچھ دیر کیلئے خالہ رضیہ سے ملا ایک رونے کا سیشن دوبارہ ھوا خالہ جلدی جانا ھے چل سوجا ٹھر کے چلا جائیں اپنی حالت ویکھ رو رو کر برا حال کیا، ھوا ھے اور خالہ پاس ھی سوگیا ایک گھنٹے بعد اٹھایا اور سیف بھائی مٹھے جو اصل میں کوڑے ھوتے ھیں امرود، اور سیب کاٹ کر بیٹھے تھے یار ات فٹافٹ کھا لے فر سفر کرنا ھے جی بھائی جان چائے کا کپ بھی پینا ھے اور زویا اپنی بہو کو آواز دی چاچو، کے لیے فورا چائے بنا کر لاو اور میں ابراھیم ان کے پوتے سے کھیلنے لگ گیا اور خالہ سے انکھیں چرانا کیونکہ خالہ کو دیکھتے ھی امی یاد آجاتی ھیں اور ھم دونوں رونا شروع اچھا خالہ اللہ حافظ اظہر مل تے لے خالہ فر ھن ھمت نہیں فر دا کا کا کی پتہ۔
شکر الحمدللہ میں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ اپنے والدین کے ساتھ گزارااور ھم ھمیشہ ساتھ رھے اب وہ اللہ پاس ھیں اللہ انکو وھاں ھمیشہ خوش رکھیں امین، امید ھے سب ساتھ ھوں گے اور خوش ھوں گے ایک دن ھم نے بھی وھیں چلے جانا ھے کل امی جی ابو، جی کی قبر پر دعا کے بعد کچھ یادیں جمع ھوئیں لکھ دیں، شکر الحمدلله مجھے اپنے والدین کی شکل یاد، ھے

Prev دوست 
Next پرانی انارکلی 

Comments are closed.