عمرانیات

عمرانیات

تحریر محمد اظہر حفیظ
عمران سیریز ھمارے دور کا سی آئی ڈی ھوتا تھا. میرے پاس اس کے تمام نمبرز ( شمارے) تھے, اور دن میں کئی چکر بھی عرشی براداز بک سٹال کے لگاتا تھا, بھائی جان عمران سیریز کا نیا نمبر آیا اور وہ کوئی اگلی تاریخ بتا دیتے بہت شوق تھا انسپکٹر جمشید, عمران سیریز اور امبر ناگ ماریہ پڑھنے کا, سردیوں میں لحاف کے اندر ٹارچ جلا کر عمران سیریز پڑھنے کا مزا ھی اور تھا تمام مسائل اور مشکلات کا حل تھا اسکے پاس اور وہ سارے حل میں یاد کرتا رھتا کہ اگر کبھی ایسی صورتحال آگئی تو کیسے نکلنا ھے , اور اس کی الفاظی وہ کیسے لڑکے اور لڑکیوں سے مذاق کرتا ھے میڑک میں ھوئے تو خالہ زاد بھائی خالد افضل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کر رھے تھے انکی کتابیں دیکھیں تو ایک مضمون عمرانیات تھا دل خوش ھو گیا کیوں کے بہت دنوں سے عمران سیریز ملا نہیں تھا نشہ ٹوٹا ھوا تھا خالد بھائی کے سونے کا انتظار کیا اور کتاب غائب کی ساری کتاب لحاف میں ٹارچ جلا کر پر عمران سیریز کے عمران کا اس کتاب میں کہیں ذکر نہیں تھا بس لوگوں کے مسائل اور انکے بارے میں باتیں تھیں, بہت دل ٹوٹا, صبح خالد بھائی کسی کو فون کر رھے تھے یار سوشیالوجی اتنی آسان نہیں ھے جتنی آپ نے بتائی رکھ تو لی ھے پر سمجھ نہیں آرھی, ھمیں بھی کچھ سمجھ نہیں آیا جب دیکھا کہ وہ عمرانیات کی کتاب لے کر بیٹھے ھیں اور کوئی مشق حل کر رھے ھیں تو پوچھا بھائی جان یہ سوشیالوجی کیا ھوتی ھے او یار عمرانیات کو انگلش میں کہتے ھیں ,اچھا تو, کہ دیا پر سمجھ کچھ نہیں آیا, عمران نام کے تمام افراد میں شروع سے دلچسپی تھی چچا رشید کا عمران جو کسی ذھنی بیماری کا شکار ھے کبھی مرگی اور کبھی بے ھوشی کے دورے پڑھتے تھے لیکن میں اس میں بھی عمران سراغساں تلاش کرتا تھا, پھر انھی دنوں ایک کھلاڑی آگیا عمران خان میں اس میں بھی عمران ڈھونڈتا رھتا وہ کبھی میچ جیت جاتا اور کبھی کسی خاتون کا دل, جب اس نے ورلڈ کپ جیتاتو پھر اس نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر کینسر ہسپتال بنانا شروع کر دیا میں سمجھا یہ ھی وہ عمران ھے, اس کے پاس سب مسئلوں کا حل ھے, پھر جب نوکری کی تو وھاں بھی اسٹنٹ عمران مل گیا تعلق راولاکوٹ سے تھا اس کو بھی لیڈر بننے کا شوق تھا ھر کشمیر ڈے پر بیس تیس لوگوں میں کھڑا ھو کر وہ تقریر کرتا اور کشمیر کی آزادی کے خواب دیکھتا, اس میگزین کے جاوید چوھدری صاحب ایڈیٹر تھے اور میں اسکا ڈیزائنر عمران صاحب ھم دونوں کااسسٹنٹ ,ایک دن میں لاھور تھا عمران تو عمران صاحب نے خوشنود علی خان صاحب کو مشورہ دیا کہہ آپ جو اتنے زیادہ پیسے اظہر حفیظ کو دیتے ھیں میری تنخواہ پانچ ھزار کر دیں میں سب کام کردیا کروں گا خان صاحب نے اس کو ایک اشتہار بنانے کو دیا اور اسکی فلمیں بھی بنانا تھی پرنٹنگ کے لیے ھم اشتہار کو چار رنگوں میں علیحدہ کرتے ھیں اور اس کو سیپریشن کی کمانڈ دیتے ھیں تو اسکے چار پرنٹ فلم پر آجاتے ھیں مختلف رنگ کی چار فلمیں عمران صاحب کا خیال تھا چار ھی پرنٹ دینے پڑتے ھیں اور ان کے پاس اب سولہ صفحات پر مشتمل فلم پراسیسنگ کے لیئے موجود تھی جب وہ فلم پراسیسر سے باھر آئی تو انکی جان نکل گئی میں واپس آیا تو گویا ھوئے استاد جی ایک گلتی ھوگئی, میں نے پوچھا جی کیا, فلم ضائع ھو گئی بارہ فٹ, وہ کیسے میں نے ایک اشتہار کا پرنٹ دیا تھا باقی فلم کا کیا کروں اکاؤنٹس والے میری تنخواہ کاٹ لیں گے, اچھا دیکھتے ھیں وہ ھوا پہلے مہینے میں فلم کا ایک رول لگتا تھا جب دوسرے کی ڈیمانڈ کی تو سوال آگیا کیا اس ماہ دو رول لگیں گے, میں نے سنبھالا جناب خان صاحب نے کچھ اشتہارات کی فلمیں بنوائی تھیں, اور یوں مسئلہ حل ھوا, اب عمران صاحب نے ڈیزائنر بننے کا خواب دل سے نکال دیا اور کالم نگار بننے کا سوچا اور جاوید چوھدری صاحب کے کالم کا سراغ لگانے لگا یہ کہاں سے دیکھ کر لکھتے ھیں بالاخر ایک دن اس کو ایک کتاب مل گئی اور وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رھا تھا میں نے پوچھا عمران کیا ھوگیا سر جی پتہ چل گیا چوھدری صاحب کالم کیسے لکھتے ھیں مل گئی کتاب میں نے کہا کتاب تم رکھ لو اور کل سے لکھنا شروع کر دو سر جی بیستی کردے او میری نیں عمران صاحب اس کتاب میں ایک واقعہ کوٹ ھوا ھے باقی تو چوہدری صاحب نے لکھا ھے پر عمران کو پتہ چلا چوھدری صاحب سفر بہت کرتے ھیں اس لیئے آسانی سے کالم لکھ لیتے ھیں اور جوان ایسا کسی سفر پر گیا ھے واپس نہیں آیا, اور اسی دوران کھلاڑی عمران خان صاحب پھر سے منظر عام پر بطور سیاستدان سامنے آئے اور ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگا دیا میں بھی خوش ھوا اور دعاگو بھی اللہ کامیاب کرے اور میرا ملک ایک ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرے الیکشن ھوئے جہاں جہاں وہ جیت گئے وھاں سب ٹھیک تھا اور جہاں ھار گئے وھاں دھاندلی ھوگئ اور پاکستان اب ایک تبدیل شدہ پاکستان بن چکا تھا ھر بات پر احتجاج دھرنا کوئی بات نہیں جمہوری حق ھے اسی دوران کسی عقلمند نے انکو مشورہ دیا کہہ زبان کو تھوڑا کھولیں اور انھوں نے اوے کا استعمال شروع کیا خیر تھی پر جب رائے ونڈ کا دھرنا تھا ایک جملہ “میاں صاحب ھم استعفیٰ لینے آرھے ھیں رشتہ نہیں ” میری بازگشت سے نہیں جارھا میری درخواست ھے عمران سیریز لکھنے والوں سے اسکے ھیرو کا نام اور زبان درست کریں, دوسری طرف اب ھر طرف عمرانیات کا بول بالا ھے ھر این جی او ماھرِعمرانیات سے بھری پڑی ھیں اور وہ بھی ملک کا وھی حال کر رھے ھیں جو باقی عمران کر رھے ھیں اس ملک میں عمرانیات سے پرھیز ھونا چاھیے فلحال,

Prev اباجی کے بغیر ایک سال
Next اظہر جعفری صاحب

Comments are closed.