قبر کے اندر کا حال

قبر کے اندر کا حال
تحریر محمد اظہر حفیظ

مجھے بطور نیم سرکاری ملازم کوئی ملال نہیں ھے کہ ھماری کئی سال سے تنخواہ نہیں بڑھی، ھر مہینے باقاعدگی سے ٹیکس ھماری تنخواہ سے کٹ جاتا ھے، کوئی نہیں دیکھتا اس سرکاری ملازم نے کتنا قرض اپنے ادارے اور اس کے بینک سے لیا ھوا ھے اس کی مد میں کوئی چھوٹ نہیں ھے۔ سب سے پہلے تنخواہ میں ٹیکس کٹوتی،پھر سب بلوں پر ٹیکس کٹوتی، پھر گھریلو سامان پر ٹیکس کٹوتی۔ اچھا ھے سب کاٹنا چاھیئے، ملک کا نظام بھی تو چلانا ھے۔
کچھ دوستوں کا خیال ھے سرکاری ملازم کوئی کام نہیں کرتے۔ تو صرف وہ ان بیچاروں کی ٹیکس کٹوتی ھی دیکھ لیں کتنی ایمانداری سے کی جاتی ھے تو لگ پتہ جائے، پھر کام کام اس کے علاوہ۔
میری گلی اور سیکٹر دوسری دفعہ لاک ڈاون ھوچکا ھے اور ھم سرکاری ملازم اتنے ڈھیٹ ھیں کہ پھر وقت پر اپنی نوکری پر جاتے ھیں۔ اور رات گئے تک جی حضوری کرتے ھیں۔ وہ کام بھی کرتے ھیں جو ھماری ذمہ داری ھے اور وہ بھی جو ھمارے ذمہ نہیں ھے۔ گھر واپسی پر بیٹیاں جب ملنے کیلئے بھاگ کر آپ کی طرف آتیں ھیں اور آپ روک کر کہتے ھو، بیٹا تھوڑی دیر میں ملتے ھیں ۔ ھاتھ دھولوں، کپڑے بدل لوں۔ تو وہ بھی رونی شکل بنا کر بابا جی حالات اتنے خراب ھیں تو آفس کیوں جاتے ھیں۔ کیا بتاوں انکا ھڈ حرام باپ سرکاری ملازم ھے۔
پچھلے پانچ سال میں ڈالر 100 روپے سے 167 روپے پر آگیا ھے ھماری تنخواھیں وھیں کی وھیں ھیں، لیکن غور کریں تو ھماری تنخواھیں کم ھوگئی ھیں۔ جو ایپسن کا کلر پرنٹر 38000 کا آتا تھا آج 54000 کا ھوگیا ھے اور اس کا ھیڈ اب صرف 24000 کا ھے۔
پتہ نہیں وہ کون سے سرکاری ملازم ھیں۔ جو رزق حلال میں ھنسی خوشی زندگی بسر کر رھے ھیں۔
یا تو سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین کی تنخواھیں بھی ڈالر کے ریٹ سے وابستہ کردیں، یا پھر کرونا سے زیادہ اموات مفلسی اور غریبی سے ھونے کے منتظر رھیئے،
آفیسر کی تنخواھیں قدرے بہتر ھیں پر چھوٹا عملہ کیسے گزر بسر کرتا ھے، مالی امور کے ماھرین ایک نظر ادھر بھی کریں۔
مجھے کچھ زیادہ کی ضرورت یا خواھش نہیں ھے بس ایک عرض ھے میں گریڈ 19 کا ایک سرکاری ملازم ھوں میری کچھ ایسے راھنمائی کریں کہ ھر مہینے سادہ زندگی گزار کر پانچ سو روپے میری بچت ھوجائے۔ کوئی گھر، پلاٹ نہ میں مانگتا ھوں نہ اسکا حق دار سمجھتا ھوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ ملازمت پیشہ لوگ گھر کیسے بنا لیتے ھیں۔
الحمدللہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ ھوں پر ان دوستوں کی صلاحیت سمجھ نہیں آتی جو صدر مملکت اور وزیراعظم سے بھی زیادہ ماھانہ تنخواہ لیتے ھیں۔
کچھ دوستوں کی تنخواہ تو اتنی ھے کہ ھر مہینے دل کا آپریشن کروا سکتے ھیں پر جن کی تنخواہ مہینے کے دنوں سے بھی کم ھزار میں ھے ۔ وہ کیسے گزارہ کریں۔ اور دوائیاں کہاں سے خریدیں اور پھر مہینوں ان پیسوں کی واپسی کا انتظار کریں۔ کوئی یتیم ھی یتیموں کا دکھ سمجھ سکتا ھے، میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی کفالت اور حسن سلوک پر بہت زیادہ زور دیا ھے۔
کیونکہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دکھ کو دیکھ چکے تھے اور سمجھتے تھے۔
پالیسی میکرز کو ان تکلیفوں کا احساس ھونا چاھیئے جو وہ دوسروں کیلئے کھڑی کرتے ھیں۔
کل میرے ایک دوست سے انکے سابقہ مالکان کا ذکر ھورھا تھا، جہاں وہ نوکری کرتے تھے، میں نے عرض کیا بہت اچھے اور بھلے مانس لوگ ھیں، اس نے بھیگی آنکھوں سے کہا سر ناراض نہ ھونا، قبر کے اندر کا حال صرف مردہ ھی جانتا ھے باھر کھڑے ھوکر اندازے ھی لگائے جاسکتے ھیں۔ بے شک سرکاری ملازمین کی تنخواھیں مت بڑھائیں، ایک عرض ھے اشیاء ضرویات سب کی پہنچ میں کردیں۔ زندگی سہل ھوتو شاید کچھ بھرم قائم رہ جائے ۔ شکریہ

Prev امی جی
Next ضابطہ اخلاق برائے فوٹوگرافی

Comments are closed.