قدرتی آفات 

قدرتی آفات 
تحریر محمد اظہر حفیظ
گاوں کی زندگی بھی بہت سادہ اور آسان ھوتی تھی جب بھی کسی آفت کا سامنا ھونا لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دیتے تھے مجھے آج بھی یاد ھے جب بارشیں نہیں رکتیں تھیں تو مسجد میں اعلان ھوتا تھا اور سب اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دیتے تھے اور اگر بارشیں نہیں ھوتی تھیں تو نماز استسقاء ادا کی جاتی تھی 
مجھے غرض نہیں کس کی حکومت ھے یا کس کی تھی قدرتی آفت کا مقابلہ نہ کوئی خود کو سپر طاقت سمجھنے والے کر سکے اور نہ کر سکتے ھیں مجھے 2005 کا زلزلہ اور اس کے بعد ملکی تاریخ کا بد ترین سیلاب دیکھنے اور فوٹوگرافی کرنے کا موقعہ ملا پھر جب سونامی مختلف ممالک میں آیا تو ان کی اکنانومی کو تہس نہس ھوتے دیکھا اور ان کی تمام پیشن گوئیوں کو غلط ھوتے دیکھا۔ مجھے یاد ھے اچھی طرح زلزے کے دنوں میں میرپور میں آزادکشمیر ٹورزم ڈیپارٹمنٹ نے فوٹوگرافی کے مقابلے بطور جج بلایا اور ان کے ایم ڈی سردار صاحب سے بات ھوئی تو کہنے لگے میرے اکاونٹ میں اچھے خاصے پیسے تھے ھر طرح کی سہولت تھی دفتر جانے کیلئے تیار ھو رھا تھا شیو آدھی کی تھی ایک جھٹکے سے گھر کی چھت سلائیڈ کر گئی اور کچھ سمجھ نہیں آیا کیا سے کیا ھوگیا نیچے ھم تھے اور اوپر آسمان اتنی کسمپرسی کبھی نہ دیکھی تھی تھوڑی صورتحال بہتر ھوئی تو لوگ کھانا اور کمبل وغیرہ لیکر آنے لگے لیکن مجھے تو لائن میں لگ کر کھانا لینا بھی نہیں آتا تھا تو کیسے لیتا ایک صاحب نے دیکھا یہ تو کئی دن سے بھوکے ھیں وہ ھمارے لئے نان اور چنے لے آیا انسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے کھانا کھایا بارش سردی بنک بند کوئی سہولت نہ تھی پھر کسی نے ھماری حالت دیکھی تو کچھ کمبل بھی دے گیا اور آھستہ آھستہ حالات بہتر ھونے لگے لیکن ھماری زندگی یکسر بدل چکی تھی سیلاب کے دنوں میں صوابی نوشہرہ رحیم یار خان چاچڑاں شریف جانے کا اتفاق ھوا اور جہاں جہاں سے چودہ فٹ سولہ فٹ پا ی گزر گیا تھا حالات دیکھنے والے تھے ایک این جی او کی طرف سے چار ھزار کاشتکاروں کی تقسیم خوراک بیج اور کھاد تھی سب کے چہرے آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ھیں جب جاپان میں اور دوسرے ممالک میں سونامی آیا تو حالت قابل رحم تھی اور وہ سب ممالک جو ان سے ھمیشہ مدد لیتے آئے تھے مدد کا پوچھ رھے تھے میرے اللہ گواہ ھیں جب بھی آفت آتی ھے حکومتوں کو نہیں لوگوں کو دیکھنا چاھیے ابھی کچھ دن پہلے ایک ٹرین کی خرابی کا میسج چل رھا تھا مقامی لوگ کیسے مدد کو آئے بہت شاندار ۔
راولپنڈی میں جب نالہ لئی میں طغیانی آئی میرے بھائیوں جیسے دوست کے گھر موھن پورا میں پانی بھرنا شروع ھوا گھر میں بہن اور والدہ اکیلیں تھیں ان کو ہمسایوں نے روشن دان کے ذریعے کیسے نکلا میرے اللہ انکا بھلا کریں میں آج تک اس کرب اور بے بسی کو اپنے دماغ و دل سے نہیں نکال سکا جو میری اس بہن اور ماں پر اس وقت گزری ھو گی ۔
میرے ھوش میں لاھور میں شاید ایک دفعہ سیلاب اور دو دفعہ بارشوں نے سیلابی کیفیت پیدا کی ۔ باقی سب اچھا کی آواز رھی ۔ حکمران کسی بھی جماعت سے ھوں انکی ذمہ داری ھے کہ ایسی آفتوں کے آنے کے بعد مستقبل میں ان سے بچاو اور نقصان کم کرنے کے انتظامات کریں جیسا کہ بالاکوٹ باغ میں لکڑی کے گھروں کی تعمیر سیلابی گزرگاھوں پر حفاظتی بند ۔ آبی نکاس کے راستوں کی صفائی اور ان کو کھلا کرنا۔ بحریہ ٹاون کا تعمیراتی نظام کی بہت دیکھ بھال کرتا ھے اور وھاں تعمیراتی خرچ بھی زیادہ ھے لیکن کچھ ماہ پہلے وھاں ایک پلازہ گرا اس کی فلم سوشل میڈیا پر آئی بہت شور ھوا لیکن کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی ھوا کیا میں نے بھی یہی سنا کہ پانی کی کوئی پائپ لائن ساتھ والے پلاٹ کی کھدائی میں پھٹ گئی تھی تو دوستوں کسی بھی جگہ کسی بھی عمارت کے ساتھ کھدائی کریں اور اس میں کھلا پانی چھوڑ دیں ساتھ والی بلڈنگ گرے گی نہیں تو بیٹھ ضرور جائے گی۔
شاپر کا استعمال اور ڈسپوزیبل برتنوں کا استعمال ھمارے لیے وبال جان بن چکا ھے جہاں جہاں بارش ھوگی نظارے لاھور والے ھی ھوں گے اس لیئے اللہ سے رحمت کی بارش کی دعا مانگیں اور جس جس نے سیاست میں بد نیتی بدعنوانی کی ھے اللہ اس کو غارت کریں ھدایت دیں امین 
ھمارے پاس ماشااللہ سے بہت اچھے ٹاون پلاننر ھیں انجینئر ھیں انکے تجربے کو کام میں لائیں سب حکومتیں سیلابی نالوں کو اور نکاسی کے انتظام کو بہتر کریں۔ شاپنگ بیگ اور ڈسپوزیبل برتنوں کا استعمال پر سختی سے پابندی ھونی چاھیئے۔ متعلقہ اداروں کی بروقت تربیت ھو۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں ھرگز ووٹ نہ دیں ایسے نمائندوں جنہوں نے آپ کے ووٹ اور پیسے کا غلط استعمال کیا۔ 
ھمیں خود اپنے ملک کو سنوارنا ھوگا قدرتی آفات کی اللہ سے پناہ مانگنا ھوگی ھم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان سے پیار کریں اس کو صاف ستھرا رکھیں۔
اللہ ھم سب کا حامی و ناصر ھو امین
پاکستان زندہ باد

Prev ایوب پارک
Next مجرم تے قانون

Comments are closed.