ماسک

ماسک

تحریر محمد اظہر حفیظ

نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں ایک لیکچر تھا ڈاکٹر در ثمین احمد صاحبہ کا۔

کمال کی استاد ھیں۔ بہت اچھے طریقے سے سمجھا رھیں تھیں کہ ھر شخص نے اپنے اوپر ایک اور کردار اوڑھا ھوتا ھے اور اسی میں زندگی گزارا دیتا ھے اس نے جو ماسک اپنی شخصیت کے علاوہ پہنا ھوتا ھے اس کو “پرسونا ” کہتے ھیں۔ اس دن سے جس کو بھی دیکھا اپنے اپنے کردار کا ماسک پہنے ھی دیکھا۔ کوئی نیک بننے کا ماسک پہنے ھوئے ھے اور کوئی شریف بننے کا ماسک پہنے ھوئے ھے، کوئی بد کردار بنا ھوا ھے اور کوئی اصولوں کا منبع بنا ھوا ھے ۔ کوئی سبزی فروش ھے، تو کوئی ضمیر فروش کا ماسک پہنے ھوئے ھے۔ جس جس کو جس کردار میں بھی دیکھا ماسک پہنے ھی دیکھا۔ پھر واویلا مچا کہ ماسک پہن لو ورنہ کرونا ھوجائے گا۔ میں بس مسکراتا ھی رھا۔ کہ بھلا یہ کیسے کسی کو ھوسکتا ھے۔ سب ھی تو ماسک پہنے ھوئے ھیں۔ پر حیرانی اس وقت ھوئی جب دیکھا کہ لوگ کرونا سے بچنے کیکئےماسک کے اوپر ایک اور ماسک پہن رھے ھیں ۔

تو اندازہ ھوا کہ رب کو ان کے کردار پسند نہیں ھیں اس لئے ان کے کردار چھپانے کیلئے ایک اور ماسک پہنا دیا ھے اور اب سب بھیڑیے، لومڑ، چیتے، شیر، گدھ، بھینسے، جن، چڑیل، بندر، گھوڑے گدھے، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، سیاستدان، انسان ایک جیسے ھی دکھائی دے رھے ھیں، تو اندازہ ھوا کہ ھر انسان نے ایک پرسونا پہنا ھوتا ھے اور اب اس پرسونا کو چھپانے کیلئے رب نے ایک اور پرسونا پہنا دیا ھے۔

پہلے پہل تو یہ ماسک صرف انگوری رنگ میں ھی دستیاب تھے پھر نیلا، سفید، گرے اور کالا بھی کردار کے مطابق بننا اور پہننا شروع کردیا۔ اب میں انسانی عقل پر پریشان ھوں جب رب نے سب کو ایک کردار میں ڈھال دیا تو صبر کر جاو، پھر انھوں نے اپنے کرتوت کے رنگ دکھانا شروع کردیئے مجھے ڈر ھے انکو پھر کہیں اس کے اوپر ایک اور ماسک نہ پہننا پڑ جائے۔ میں نے سب ادوار دیکھے ھر ایک کی اداکاری بھی دیکھی، کوئی دادا ھے، کوئی باپ ھے، کوئی اولاد ھے، کوئی ساس ھے اور کوئی بہو ھے۔ کئی تو بہن بھائیوں کے کردار نبھا رھے تھے۔ مجھے سب نظر آرھے تھے پر کہہ کچھ نہیں سکتا تھا۔ بس دل میں آتا تھا کہ رب باری تعالٰی سب کے پردے قائم رکھے امین۔ پہلے پہل تو میری ذمہ داری لگی کہ دنیا دیکھوں اور اس کے کردار دیکھوں۔ یہ سب اچھا اور پیارا لگ رھا تھا۔ پھر رب باری تعالٰی نے مجھ سے کئی پردے ھٹا دیئے مجھے دنیا دکھانا بند کردی پر ان کرداروں کے ماسک اتار کر ان کی اصلیت میرے سامنے لانا شروع کردی۔ پہلے میں دنیا کے مزے لیتا تھا۔ اب میں ان کرداروں کو دیکھتا ھوں اور مسکراتا ھوں۔ میں رب باری تعالٰی کے آگے سر بسجود ھوں کہ باری تعالٰی تیرے علاوہ ساری زندگی کسی کو سجدہ نہیں کیا اور نہ ھی کبھی اتنا بے بس کرنا اور اس نے ھمیشہ میری عزت رکھی الحمدللہ۔ میں نے ھمیشہ اللہ کو ھی مدد کیلئے پکارا اور انھوں نے ھی ھمیشہ میری بہترین مدد کی۔ الحمدللہ اور کرتے رھیں گے انشاءاللہ۔

میں جب کسی کے پاس جا ھی نہیں رھا تو میرے پاس آکر اپنی مصیبتوں اور ضرورتوں کے پہاڑ بیان کرنے کا مقصد کیا ھے۔ برائے مہربانی یاد رکھیں مجھے میرے رب نے سوچنے، سمجھنے، دیکھنے، سننے، لکھنے، سونے، جاگنے، محسوس کرنے، صحت، اور بہت ساری نعمتوں سے نوازا ھے۔ پلیز احتیاط کیجئے، میں اور میری فیملی دلی طور پر شکر گزار ھیں ان سب دوست احباب کی جو اپنی نیک تمنائیں ، خواہشات، جذبات ھم تک پہنچاتے ھیں۔ اور اپنے خلوص کا اظہار فرماتے ھیں ۔ یاد رکھیں خاموش رھنا بھی ایک ماسک ھے اسکو پہنے رکھیں کم از کم آپ کا اور میرا بھرم قائم رھتا ھے۔ بلاوجہ ان سوالات کے جوابات جو پوچھے ھی نہیں گئے ماسک پہننے کے باوجود آپ کے خیالات کو برھنہ کردیتے ھیں۔ سلامت رہیں خوش رہیں آمین۔ اللہ تعالٰی ھم سب پر اپنا کرم جاری رکھیں آمین کسی کو کسی کا محتاج نہ بنائیں آمین۔ دعائے خیر کی درخواست ھے

Prev کھلاڑی
Next احساس کے نشتر

Comments are closed.