ماضی، حال، مستقبل

ماضی، حال، مستقبل
تحریر محمد اظہر حفیظ

کسی بھی چیز کی وافر مقدار میں دستیابی اس کی قدر کم کر دیتی ھے۔ یہاں تک کہ والدین سے دور رھنے والا بچہ ھی انکو اکثر یاد آتا ھے ۔ اسی طرح میں بھی موجودہ دوستوں کو چھوڑ کر گمشدہ دوستوں کو ڈھونڈتا رھتا ھوں۔ مجھے کبھی پہلی کلاس کا کلاس فیلو یاد آجاتا ھے اور کبھی استاد۔ کبھی مجھے بابا نیامت یاد آجاتا ھے جو ھمارے گاوں کی گلی میں سبزی اور پھل بیچتا تھا اور کبھی چاچا شفیع جو ھمارے گھر کے پیچھے گلی میں دوکاندار تھا۔ کبھی مجھے آپا جی حفیظ یاد آجاتی ھیں جو امی جی کے ساتھ ٹیچر تھیں بلکل ھمارا خالہ کی طرح خیال رکھتیں تھیں آج بھی بہت پیار کرتی ھیں کبھی چاچا جمیل یاد آجاتے ھیں کبھی چاچا نیاز جو ابا جی کے بہترین دوست تھے۔ کبھی مجید بازیگر یاد آجاتا ھے جو سال میں ایک دفعہ ھمارے گاوں میں آکر کرتب دکھاتا تھا۔ کبھی مجھے آٹھویں جماعت میں پڑھتی باجی ثمینہ اور روبینہ کے ھوم اکنامکس کے وہ ابلے ھوئے انڈے یاد آجاتے ھیں جن پر کالی مرچ اور زیرے سے شکل بنی ھوتی تھی کبھی مجھے بابا شیر شاہ کا ڈجکوٹ کا میلہ یاد آجاتا ھے جس میں جولے لگتے تھے ٹاکی سینما چلتا تھا عالم لوھار صاحب کا شو ھوتا تھا موڈا مار کے ھلا گئی جے مینو تے ھولی دینی سوری آکھ گئی۔ کبھی مجھے گانا گاتے ھیجرے یاد آتے ھیں جو گھروں کی دہلیز پر آکر دکھی گانے سناتے تھے اور پیسے کماتے تھے یتیم مسکین گانے سن سن کر روتے تھے اور پیسے دیتے تھے۔ کبھی مجھی ڈیزل بس میں ڈیزل کی بو سے الٹی کا آنا یاد آتا ھے میں شاید ماضی میں رھنے والا انسان ھوں حال اور مستقبل میں پتہ نہیں کب آوں گا ۔ میں آج بھی نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی چلا جاوں تو لاھور کے دوستوں کو ڈھونڈتا رھتا ھوں۔ حالانکہ مشہور کہاوت ھے جو چیز جہاں گم ھوئی ھو اس کو وھیں ڈھونڈنا چاھیئے۔ لیکن مجھے اکثر یاد نہیں رھتا کہ میں کہاں ھوں ۔ شاید جو چیزیں ھمیں دستیاب ھوتی ھیں ھم انکی قدر نہیں کرتے اور جو کھو دیتے ھیں اس کو یاد کر کر روتے رھتے ھیں۔ میں اکیلا ھی نہیں میرے دوست بھی شاید اسی بیماری کا شکار ھیں۔ جب ملنے جاو وہ آج ملنے کو سیلیبریٹ کرنے کی بجائے پچھلی دفعہ کیوں نہیں آئے تھے کا رونا رو رو کر وقت گزار دیتے ھیں۔ میری بیٹی دسمبر میں پیدا ھوئی آرمی پبلک سکول پشاور والے حادثے کی وجہ سے اس سال ھم نے اسکی سالگرہ نہیں منائی تو انکا شکوہ ھے آپ نے میری سالگرہ کبھی نہیں منائی۔ کیونکہ انکو ایک سال یاد ھے باقی 15 سال بھول گئی ھیں ۔ اسی طرح مجھے بھی شاید آج کی خوشیاں نظر نہیں آتیں میں ماضی کی محرومیوں کو یاد کر کر کے روتا ھوں۔ 
میرے والدین اللہ پاس چلے گئے اس کی امانت تھے سب نے چلے جانا ھے اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں۔ امین۔ میں اب خود والد ھوں چاچا ھوں ماما ھوں پھوپھا ھوں لیکن میں اس خوشی کا مزہ لینے کی بجائے اس بات پر روتا رھتا ھوں کہ میرے والد فوت ھوگئے ھیں۔ میری امی جی اکثر رو دیتی تھیں میں گلے لگا کر رونے لگ جاتا امی جی کیا ھوا ھے تو کہنے لگتیں جب ھم ھندوستان سے آئے تھے ھمارے پاوں میں جوتے نہیں تھے پر امی جی اب دیکھیں ماشااللہ کتنے ھیں۔ پھر وہ کہتیں نہیں محمد اظہر حفیظ تینوں سمجھ نہیں آنی۔ وہ روتی روتی اس دنیا سے چلی گیئں ۔ کبھی رونے لگ جاتیں نواز اور ریاض امی کے بھانجے بہت چھوٹے تھے جب ان کے ماں باپ چلے گئے امی جی ماشااللہ اب وہ خود باپ ھیں نہ کیا کریں ایسے میں مجھے اشفاق احمد صاحب کی وہ بات یاد آجاتی ھے کہ ھم نے دکھوں کے البم بنا کر رکھے ھوئے ھیں بغل میں دبائی پھرتے ھیں جب وقت ملتا ھے انکو کھول کر بیٹھ جاتے ھیں اور رونا کوسنا شروع کر دیتے ھیں۔
یااللہ میری دعا ھے مجھے میرے عزیز و اقارب اور دوستوں کو حال اور مستقبل کی خوشی عطا فرما۔ ھمیں حال میں خوش رھنا سکھا دے۔ 
میں نے بلھے شاہ کا میلہ،داتا دربار کا میلہ،بری امام کا میلہ سب بڑے بڑے میلے دیکھے ھیں پر مجھے یاد ھے تو بابا شیر شاہ کا گاوں کا میلہ۔ میں کئی ممالک میں گیا بڑے بڑے شاپنگ مال دیکھے لیکن مجھے ڈجکوٹ کا بازار نہیں بھولتا۔ کئی یونیورسٹیاں کالج سکول دیکھے لیکن اپنے گاوں پھرالہ تحصیل و ضلع لائلپور میں کیکر کے نیچے زمین پر بیٹھ کر پڑھنے کو نہیں بھول سکتا۔ بہت سی یونیورسٹیوں میں پڑھایا ایئرکنڈیشنڈ کلاس رومز ھیں پر مجھے کیکر کے درخت کی ٹھنڈی چھاوں اور میٹھی پھلیاں نہیں بھولتیں۔ سینٹورس شاپنگ مال، جناح سپر،سپر مارکیٹ،ایف ٹین مرکز،ایف الیون مرکز اسلام آباد، لبرٹی لاھور، فوٹریس سٹیڈیم لاھور،طارق روڈ کراچی سب دیکھے لیکن مجھے صدر بازار شاھین چوک غلام محمد آباد لائلپور نہیں بھولتا۔ بہت سی بیکریاں دیکھیں تہذیب بیکرز،ماڈرن بیکرز،راحت بیکرز پر مجھے یادگار سویٹس صدر بازار غلام محمد آباد لائلپور آج تک نہیں بھولتی۔
شاید میں ماضی کا رھنے والا ھوں آج میں ڈپٹی کنٹرولر گرافکس کے طور پر پی ٹی وی میں اپنے فرائض سر انجام دے رھا ھوں جو اس ڈیپارٹمنٹ کی سب سے سینئر پوسٹ ھے لیکن میری بیوی کہتی ھے یاد رکھنا استین کےسانپوں سے ھوشیار رھنا۔ چھوڑ اللہ کی بندی ھم نے کیا کرنا یاد کرکے معاف کردے۔ اچھا چلیں آپ کہتے ھیں تو معاف کیا لیکن یاد رکھنا کون کون کتنا شاطر ھے یار ھم کیا کریں گے ڈائریاں بنا کر درگزر کر دے ۔ سب اچھے لوگ ھیں ۔ مجھے بھی نہ آپ کی سمجھ نہیں آتی۔ کسی بھی چیز کو یاد نہیں رکھتے۔ سب کو ایسے ملتے ھیں جیسے کچھ ھوا ھی نہیں۔ یار سارا دن ماضی کی یاداشتیں ھی لکھتا رھتا ھوں اور کیا کروں میں ان سب کو بھولنا چاھتا ھوں نئے سرے سے نئے جذبے سے آج کے دن ملنا چاھتا ھوں حال میں سب کو دستیاب ھونا چاھتا ھوں۔ جو ناراض ھیں انکو منانا چاھتا ھوں ۔ میاں صاحب یہ آپکی سوچ ھے لوگ ایسے نہیں سوچتے ۔ تم ٹھیک کہتی ھو۔ لوگ مجھے ماضی سے نکلنے نہیں دیتے میں اگے بڑھتا ھوں اور وہ مجھے گھسیٹ کر واپس وھیں چھوڑ آتے ھیں جہاں سے میں چلا تھا۔ میں اگے بڑھنا چاھتا ھوں سب نفرتیں سب کدورتیں بھلا کر آئیں میرے ساتھ چلیں ساتھ ساتھ چلیں

Prev دنیا ایک سٹیج ھے 
Next لاھور

Comments are closed.