مجھے سمجھ نہیں آرھی

مجھے سمجھ نہیں آرھی

تحریر محمد اظہر حفیظ

بچپن سے لیکر آج تک مجھے نہ تو ترقی سمجھ آئی اور نہ ھی آرٹ
چھٹی کلاس میں تھا مجھے شکر قندی شروع سے ھی بہت پسند تھی ابا جی جیب خرچ بھی اچھا دیتے تھے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ھونے دی سکول میں آدھی چھٹی ھوئی میں سکول سے باھر آیا اور شکر قندی والے پہلوان سے شکرقندی کی پلیٹ بنانے کو کہا اس نے جلدی جلدی شکر قندی چھیلی اور اس پر مرچ مصالحہ ڈال کر کینو نچوڑنے لگا پاس کھڑا ھمارے سکول کا بچہ اس نے شکر قندی کے چھلکے اٹھائے اور اس پر لگی شکر قندی کھانے لگ گیا میں نے اس کو دعوت دی جگر ادھر اور ھم نے مل کر شکر قندی کھائی لیکن آج چھتیس سال بعد بھی وہ منظر میری نگاھوں میں آتا ھے تو جسم کانپ جاتا ھے اتنی غربت ھے میرے ملک میں اور ھم پتہ نہیں کن چکروں میں پڑھے ھوئے ھیں میں نے پچھلے کئی ماہ سے ٹی وی دیکھنا اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ھے اور بہت سے تنگ نظر اور بدتمیز عقلمندوں کو دوستی سے بھی فارغ کر دیا ھے، مجھے نہیں سمجھ آتی وہ کون سے لوگ ھیں جو پانچ پانچ لاکھ کی پینٹنگ سکلپچر خریدتے ھیں، ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ کی گاڑیاں خریدتے ھیں کروڑوں کے گھر بناتے ھیں میٹرو، اورنج ٹرین بناتے ھیں چوبرجی، لاھور فورٹ میوزیم بناتے ھیں، ان کی حفاظت کی بات کرتے ھیں، چڑیا گھر میں ھاتھی اکیلا ھے اسکی فیملی ھونی چاھیے اس پر روتے ھیں این جی اوز بناتے ھیں پیسے کماتے ھیں زندگی کو آسان کرو جی سادہ سادہ کھاو سادہ رھو سادہ زندگی گزارو کن چکروں میں پڑھ گئے ھو جی، کیا ھم میوزیم بنانا افورڈ کرتے ھیں کیا ھم موٹرویز بنانا افورڈ کرتے ھیں، میرا سب سیاسی پارٹیوں سے درخواست ھے جو بھی حکومت میں آئے سب کو صاف پانی سادہ غذا، علاج معالجہ، بنیادی دینی اور دنیاوی تعلیم، صاف ستھرا ماحول، انصاف ،حلال روزگار امن مہیا کرنے کے بعد ترقی اور ترقیاتی کاموں کے بارے میں سوچیں،
میں شائد لوگوں کی نظر میں کامیاب انسان نہیں ھوں کیونکہ میں برانڈڈ کپڑے نہیں پہنتا، اچھے ریسٹورانٹ میں کھانا نہیں کھاتا، جوتے سستے پہنتا ھوں انگریزی زبان بولنا نہیں آتی، گھڑی میرے پاس نہیں ھے جھوٹ نہیں بولتا، ترقی کے لیے افسروں کی ناجائز باتیں برداشت نہیں کرتا اللہ کو اپنا باس سمجھتا ھوں اسی کو سجدہ کرتا ھوں خوش رھتا ھوں، میرے دوست مجھ سے ناراض ھوتے ھیں میں پھر بھی خوش رھتا ھوں، جو میرے راستے میں پتھر رکھتے ھیں ان کے پاس سے بھی مسکرا کر گزر جاتا ھوں الحمد للہ مطمئن زندگی ھے کوئی شکایت نہیں زمانے سے جو تنگ کرتے ھیں ان کی ذمہ داری یہی ھے جو آسانی پیدا کرتے ھیں انکی بھی یہی ذمہ داری ھے اللہ دونوں کو خوش رکھے امین، میں زندگی میں کسی سے امید نہیں لگاتا اللہ کے سوا اور نہ ھی ڈرتا ھوں اللہ کے سوا،ھفتے کے سارے دن فون سنتا ھوں جس کا فون نہ سن سکوں اس کو واپس کال کرتا ھوں جھوٹے دلاسے نہیں دے سکتا، معافی اور شکریہ فوراً استعمال کرتاھوں، کبھی کبھی قبرستان جاتا ھوں وھاں سب کے لیے دعا کے بعد امی جی کی قبر پر جاتا ھوں دعا کرتا ھوں پھر ابا جی کی قبر پر دعا کرتا ھوں پھر استاد محترم معراج خان صاحب، دوست محترم فواد فاروقی، پینٹر غلام رسول صاحب اور دوست احباب کے والدین کی قبروں پر دعا کے بعد واپسی کا سوچتا ھو پھر ڈرتا رھتا ھوں کہ آئے تھے تو میری قبر پر نہیں آئے کوئی شکوہ ھی نہ کر دے، کوشش ھے زندہ اور وفات پاجانے والے سب خوش رھیں کوئی ناراض نہ ھو، لیکن کچھ سپیڈ بریکر جن کو دیکھ کر میں سڑک بدل لیتا ھوں وہ ناخوش ھیں ھمارے پاس نہیں آیا سوری کرنے میری جان جب کیا ھی کچھ نہیں تو سوری اور شکریہ کیسا،
میں سب پر یقین کرتا ھوں الحمدللہ کوئی جھوٹ بھی بولے اس کو سچ سمجھتا ھوں، لیکن جب لوگ میرے سچ کو جھوٹ سمجھتے ھیں چپ کر جاتا ھوں، میں بہت سی چیزوں کو سمجھنا ھی نہیں چاھتا، جس کو اللہ عزت دے اس کو کبھی چیلنج نہیں کرتا اسکی عزت کرتا ھوں اسکے معاملات میرے ساتھ کیسے بھی ھوں،
اب میں بوڑھا ھونا شروع ھوگیا ھوں اور بچوں کی طرح میری مزاج میں بھی ضد آنا شروع ھوگئ ھے میں نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا ھے جنازے سب کے پڑھنے جاتا ھوں امید ھے میرے جنازے میں بھی لوگ ھوں گے لیکن کچھ احباب کے لیے وصیت کروں گا وہ میرے ماں باپ کے جنازے پر نہیں آئے دفتر میں مصروف تھے بے شک نہ آئیں، کوئی شکوہ نہیں، کچھ لوگوں سے زندگی میں ملنا نہیں چاھتا جو منافق ھیں اور دل میں کینہ اور بغض رکھتے ھیں، اللہ کی قسم میں زندگی اور آخرت میں ایسی کوئی ترقی یا سہولت نہیں چاھتا جو میرے اللہ کے علاوہ کوئی اور دینے کا دعویدار ھو، میں کسی بھی فرعون کو نہیں مانتا وہ موسی علیہ السلام کے دور کا ھو یا آج کا،
ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں جانتا

Prev آؤ نفرت پھیلائیں 
Next این سی اے کا پہلا دن

Comments are closed.