مفلسی

مفلسی
تحریر محمد اظہر حفیظ

فورٹ منرو ڈیرہ غازی خان کے پہاڑوں پر کھڑا تھا اور تعمیراتی کام کی وجہ سے ٹریفک جام تھی درجنوں ٹریکٹر اور ٹرالیاں رکی ھوئی تھی اور میں ایک ھجرت دیکھ رھا تھا۔ ٹرالی پر چارپائیاں، جانور، جھونپڑی کا سامان اور ان سب کے اوپر کچھ خواتین وحضرات اور بچے بیٹھے ھوئے تھے۔ سخت گرمی تھی اور کچھ وہ بے بس تھے اور کچھ میں۔کہاں جا رھے ھیں۔ جی لورا لائی اردو سمجھ آتی ھے۔ نہیں جی سرائیکی۔ مجھے ایسے لگا جیسے سرائیکی صوبہ بن گیا ھے اور یہ سب ھجرت کر رھے ھیں۔ انتہائی خوبصورت بچے دھوپ کی شدت سے تنگ ھورھے تھے اور مائیں پانی کےکولر سے لوٹے بھر کر ان سب کو پانی پلا رھی تھیں۔ ان کے پاس گلاس تک نہ تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی یہ نیا پاکستان بن رھا ھے یا پھر وسیم اکرم بزدار صاحب نے کوئی بال کرادی ھے۔ آج ایک ھفتہ ھوگیا ان حالات کو دیکھے ھوئے اور تصویر میرے ذھن سے نہیں جا رھی۔ دوسری طرف جب میں اپنے بچوں کو دیکھتا ھوں انکی سہولتوں کو دیکھتا ھوں اور ان کو روتے دیکھتا ھوں تو ٹرالی پر بیٹھے مسکراتے بچے دیکھتا ھوں تو سوچتا ھوں کہ وہ کتنے شکر گزار ھیں اور ھم کتنے ناشکرے۔ 
بابا جی اے سی چلانا شروع کر دیکھیں بہت گرمی ھے بیٹا سروس کروالیں پھر چلانا شروع کرنا اس اتوار کو سب اے سی سروس ھوجائیں گے انشاءاللہ۔ بابا جی پانی ٹھنڈا کیوں نہیں پیتے گرم پانی کا بھی کوئی مزا ھے ۔ مجھے لوٹے سے پانی پیتے بچے نظر آنا شروع ھوجاتے ھیں۔ آپ کہاں سے آرھے ھیں ھم سردیوں میں پہاڑوں سے نیچے گرم علاقوں میں آجاتے ھیں اور گرمیوں میں واپس آجاتے ھیں مطلب وہ سال میں دو دفعہ ھجرت کرتے ھیں اور ساری زندگی یہی کرتے رھتے ھیں۔ 
وہ کیسے اپنے بچوں کو تعلیم دے سکتے ھیں اور کیسے نئے پاکستان کا حصہ بن سکتے ھیں۔
مجھے نہیں پتہ وہ ٹریکٹر ٹرالی کی ادائیگی کیسے کرتے ھوں گے اور سارا سال کیسے پیسے جوڑتے ھوں گے کہ دودفعہ ھجرت کرنی ھے بکروال تو دیکھے تھے سردیوں میں گرم علاقوں میں آتے اور واپس جاتے۔ پر پورا علاقہ جاتے اور آتے پہلی دفعہ دیکھا۔ غریب الوطنی کا نام سنا تھا دیکھا پہلی دفعہ۔
کچھ سمجھدار لوگوں نے اوپر کپڑا لگا کر سایہ کیا ھوا تھا زیادہ تر تپتی دھوپ میں ھی بیٹھے تھے ٹرالی سوار کبھی لیٹ جاتے اور کبھی بیٹھ جاتے تھے اور جب میں ان مناظر کو کیمرے میں محفوظ کر رھا تھا تو وہ مسکرا کر مجھے دیکھ رھے تھے اور مجھے برگر چپس پیپسی کیلئے روتی اپنی چھوٹی بیٹی کبھی یاد آتی تھی اور کبھی اپنی بیوی یار اظہر بچوں کے کپڑے لانے والے ھیں جی اچھا ۔ مجھے یاد ھے چائنہ میں پچیس دن کیلئے گیا تو ساتھ پچیس شرٹس تھی کہ دھلوانی نہ پڑیں۔ میں ایک عجیب کرب کا شکار ھوں کہ کتنا پیسہ ضائع کیا۔اور کن کن کاموں پر کیا ۔ کئی پکے گھر بنا کر ان لوگوں کو دیئے جا سکتے تھے۔ میں اپنے آپ کو ان پاکستانیوں کا مجرم سمجھتا ھوں ۔ اور مجھے ان کیلئے کچھ کرنا چاھیئے تھا۔ کیونکہ وسیم اکرم بزدار تو کچھ کرتا نظر نہیں آتا۔ پتہ نہیں ان پر کیا گزرتی ھوگی یا پھر یہ ھجرت انکی نگاہ سے گزری نہیں یا پھر وہ تیزی سے دوڑتے ھوئے ان کے پاس سے گزر جاتے ھیں جیسے ایک فاسٹ بالر گزرتا ھے شاید اسی مزاج پر وزیراعظم صاحب انکو عثمان بزدار کی بجائے وسیم اکرم بزدار کہتے ھیں۔ پچاس لاکھ نہ سہی پچاس ھزار گھر بنائیں سب سے پہلے حق انکا ھے ۔ مجھے گھر نہیں چاھیئے بس مجھے مفلسی کے اس کرب سے نکال دیجیئے میرے وزیراعظم میں آپکا شکر گزار رھوں گا۔
میں گم سم ھوں اور بول نہیں سکتا ۔ شاید یہی کیفیت وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب پر بھی ھے اسی لیئے کم گو ھیں۔ میری صاحب اختیار سے گزارش ھے کچھ کیجئے مجھے اس مفلسی کی اذیت سے نکالئے ۔ آپ کی بہت مہربانی ھوگی۔ لغاری صاحبان اور میرے کالج کی خوبصورت منسٹر برائے موسمیات کچھ کر جائے پلیز۔ ورنہ وھاں کا موسم ھی ٹھیک کر دیں آپ کے اختیار میں تو سب کچھ ھے۔ شکریہ

Prev طنز و مزاح
Next ڈاکو

Comments are closed.