میاں حسن فاروق طفیل

میاں حسن فاروق طفیل

تحریر محمد اظہر حفیظ

میاں طفیل محمد صاحب کے چار بیٹے ہیں میاں احسن فاروق ، میاں محسن فاروق، میاں حسن فاروق، میاں زبیر فاروق اور ماشاءاللہ آٹھ بیٹیاں ہیں۔
ہمارے تایا زاد بہن بھائی ہیں۔
بہت چھوٹے تھے پر ہماری زیادہ دوستی احسن فاروق بھائی سے تھی کیونکہ وہ اکثر گاوں آتے رہتے تھے اور سب سے ملنا جلنا حال چال پوچھنا ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا۔ پڑھنے میں بھی بہت لائق تھے اس وقت چارٹرڈ اکاونٹسی کے طالبعلم تھے۔ دوسرے نمبر پر میاں محسن فاروق بھائی ان سے بھی ملاقات رہتی تھی پر جب میں لاہور نیشنل کالج آف آرٹس گیا تو اکثر ملاقات رہنے لگی یہ ہمارے پاس اسلام آباد بھی ریگولر آتے تھے ان کے تینوں بچے جن کا میں ماموں بھی تھا اور چاچا بھی کیونکہ انکے والدین دونوں ہی میرے کزن تھے۔ مجھے یہ بچے ہمیشہ سے ہی بہت عزیز ہیں ۔ اکثر دوپہر کاکھانا انکی طرف کھانے ھاسٹل سے وحدت روڈ علامہ اقبال ٹاون چلا جاتا ۔ محسن بھائی پرنٹنگ کے شعبہ سے بہت عرصہ منسلک رہے اور بچوں کی شادیوں کے بعد آج کل گھر پر وقت گزار رہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رہتا ہے۔ ڈی ایچ اے کرایہ پر شفٹ ہوگئے ہیں
تیسرے نمبر پر میاں حسن فاروق جو ریاض یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے سعودیہ سے واپسی کے بعد جماعت سے منسلک ہوگئے۔
ہر خوشی غمی پر گاوں 258
ر- ب پھرالہ لائلپور آتےتھے۔
انکو ہمیشہ تایا جی میاں طفیل محمد صاحب کا ہمسفر رہنے کا بھی اعزاز رہتا تھا ۔ دیکھنے میں سادہ طبعیت اور کم گو تھے۔ جب بھی تایا جی گاوں آتے حسن بھائی ساتھ آتے۔ تایا جی کے پاس اکثر جماعت اسلامی کی بڑی ہائی ایس گاڑی ہوتی جس میں وہ خود پیٹرول ڈلوا کر گاوں آتے تھے ۔ ہمیں بھی کئی دفعہ بھائیوں کے ساتھ سفر کا موقع ملتا تھا۔ تب جاکر انکشاف ہوا کہ حسن بھائی سب بھائیوں سے زیادہ حس مزاح رکھتے ہیں اور انکی ابزرویشن بہت تیز ہے ۔ ہمارے بہنوئی میاں حفیظ اللہ جو ہماری پھوپھو کے داماد ہیں ۔ بہت نستعلیق انسان ہیں انکے کپڑے شدید استری اور جوتے ہر وقت پالش ہی دیکھے خاندان میں سب سے زیادہ ہنس مکھ انسان ہیں۔
ایک دفعہ فیملی میں کسی کی بارات تھی جس پر گاڑی میں بھائیوں کے ساتھ میں بھی شریک سفر تھا میں نے حسن بھائی کو بولتے دیکھا اور سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے کیونکہ یہ کمنٹری کے انداز میں ، میاں حفیظ اللہ بھائی کے انداز میں انکی پیروڈی کر رہے تھے۔ باقاعدہ یہ کونسی جگہ ہے یہاں میں کب آیا یہاں کی کیا خصوصیات ہیں ایسے بول رہے تھے جیسے بھائی حفیظ اللہ بولتے ہیں۔ پھر میری بھی دلچسپی حسن بھائی میں بڑھنے لگی ۔ جب بھی ملاقات ہوتی میں پاس،بیٹھنے کی کوشش کرتا اکثر منصورہ جانا ہوتا تو انکو جماعت اسلامی کے کاموں میں مصروف پایا منصورہ میں گھر کے ساتھ ہی دفتر تھا۔ میں جب بھی تایا جی سے ملنے جاتا تو حسن بھائی کو ملنے ان کے دفتر پہنچ جاتا میں انکی باتیں سننے پہنچ جاتا پر عام زندگی میں وہ بہت کم گو تھے۔ تایا جی کے شاگرد قریبی ساتھی حافظ عبدالرحمن خلیل جو کشمیری تھے پر سعودی عرب نے انکو کئی دھائیاں پہلے غالبا 1964 میں سعودی نیشنیلٹی دے دی تھی۔ جب بھی پاکستان آتے تو لاہور سے تایا جی اور حسن بھائی کو ساتھ لیکر اسلام آباد آتے فیڈرل بورڈ کے ساتھ انکا مدرسہ واقع تھا جس کا پلاٹ جرنل ضیاءالحق صاحب نے الاٹ کیا تھا اور اسکو بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے کافی معاونت کی تھی۔
حسن بھائی کا گھر فون آتا چچا جان کو لیکر مدرسہ آجائیں وہاں کافی ملاقاتیں رہتیں۔ تایا جی کم وقت کیلئے ہی گاوں آتے تھے منصورہ کے علاوہ چند دن کا قیام اگر دیکھا تو حافظ عبدالرحمن خلیل صاحب کے ہاں دیکھا۔ حافظ صاحب کئی سعودی علماء کے استاد تھے اور تایا جی کے شاگرد اور محبت کرنے والے۔
ہم جب وہاں پہنچتے تو تایا جی کہتے بھئی حفیظ احمد انکو سمجھائیں میں نے واپس جانا ہے۔ ابا جی جی میاں صاحب۔
جب پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو حافظ صاحب عربی لباس،میں ملبوس تھے ۔ سلام دعا ہوئی اور وہ کچھ قہوے وغیرہ کا انتظام کیلئے اندر چلے گئے اباجی میاں صاحب یہ تو عربی ہیں اور میں ان سے کیسے بات کروں تایا جی نہیں حفیظ صاحب یہ پاکستانی کشمیری ہیں۔اب سعودیہ رہتے ہیں۔
حسن بھائی چچا جان منصورہ سے بہت فون آتے ہیں کہ ہمارا میاں صاحب کے بغیر گزارا نہیں ہوتا آپ واپس آئیں پندرہ دن ہوگئے ہیں۔ کیونکہ تایا جی ہمیشہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے انکی زندگی آخری نماز بھی ماشاءاللہ جماعت کے ساتھ ادا ہوئی اور عمر کے آخری سالوں میں انکی بینائی بہت متاثر ہوگئی تھی تو وہ گھر سے حسن بھائی کو ساتھ لیکر نماز کیلئے جاتے تھے۔ حسن بھائی کی آنکھیں میاں صاحب کو دیکھنے میں مدد کرتی تھیں اور انکا ہاتھ چلنے میں سہارا دیتا تھا ۔ یہ سعادت باقی گھر والوں کےساتھ حسن بھائی کے حصے میں زیادہ آئی۔ تو سب ہی انکو دیکھ کر نماز کیلئے چل پڑتے تھے اب فون کرتے ہیں کہ جی ہم میاں صاحب کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور ہماری نماز قضا ہوجاتی ہے کہ جب میاں صاحب یہاں سے گزریں گے تو ہم بھی مسجد پہنچ جائیں گے۔ ایک دفعہ بتانے لگے کہ میاں صاحب کی سرجری ہوئی تو ڈاکٹر نے روزے رکھنے سے منع کردیا اس سال روزے نہ رکھیں۔ میاں صاحب خاموش رہے۔ اور اپنی روٹین تبدیل کردی فجر کے بعد ناشتہ اور مغرب کے بعد رات کا کھانا۔ جب روزے آئے تو ہم نے ڈاکٹر کی بات یاد کروائی تو کہنے لگے حسن صاحب صرف ناشتہ فجر سے پہلے کرنا ہے کچھ وقت سے کہاں فرق پڑے گا اور مکمل روزے رکھے۔ تب ہمیں کھانے کی روٹین میں تبدیلی سمجھ آئی۔
میں اکثر لکھتا تھا تو سب بھائی پڑھتے تھے۔ پر کبھی کچھ کہا نہیں۔ میرے بھتیجے روحان طاہر کی شادی حسن بھائی کے خالہ زاد بھائی میاں خالد فاروق کی صاحبزادی سے تھی سب آئے ہوئے تھے زبیر بھائی لاہور تھے باقی تینوں بھائی شادی میں شریک تھے۔ حسن بھائی اظہر حفیظ بھائی ادھر آئیں اچھا بھائی جان۔ پہلے اپنی فیملیوں سے میری فیملی کو تینوں بھائیوں نے ملوایا اور پھر تینوں مجھے لیکر بیٹھ گئے۔ یار یہ تم ہر وقت کیا لکھتے رہتے ہو چار بیٹیاں، میری چار بیٹیاں انسان بنو۔ جی بھائی جان کیا ہوا یار تم کونسے گریڈ کے افسر ہو بھائی جان 19 ویں گریڈ کا کیا ہوا ہے بتائیں تو سہی ۔ آپ کو پتہ ہے ہماری ماشاءاللہ آٹھ بہنیں ہیں جی بھائی جان اور ہماری مالی حالات بھی ہمیشہ سے آپکے سامنے رہے ہیں جی بھائی جان ماشاءاللہ ان سب کی شادیاں ہوگئیں اور سب اپنے گھروں میں خوش ہیں تم فکر نہ کیاکرو یہ تو صرف چار ہیں ۔فکر ایک والوں کو کرنی چاہیے زیادہ بیٹیاں جلدی بیاہی جاتی ہیں۔ اور میں نے وعدہ کیا آئندہ انکا ذکر ایسے نہیں کروں گا۔ وہاں بڑے بیٹے عبداللہ حسن طفیل سے بھی ملاقات کرائی بیٹے یہ آپکے چچا میاں محمد اظہر حفیظ ہیں پی ٹی وی میں ہوتے ہیں۔
میرا جگر ٹرانسپلانٹ ہونا طے پایا تو دوست ڈاکٹر عامر شہزاد بھائی نے بتایا کہ ڈاکٹر نجم الحسن شاہ بہترین حگر کے ڈاکٹر ہیں اور پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹوٹ لاہور کے ڈائریکٹر میڈیکل ہیں۔ میرے پرانے فوجی فاونڈیشن ہسپتال کے ساتھی اور دوست ہیں میں بھی انکو کہہ دیتا ہوں ۔ پھر تفصیل بتانے لگے کہ وہ قاضی حسین احمد صاحب کے بھانجے ہیں۔ جی شکریہ ۔
تایا جی کی وفات کے بعد جماعت اسلامی سے ہمارے مضبوط بندھن میں پل کا کام میاں حسن فاروق بھائی ہی کرتے تھے انکی زندگی بھی تایا جی کی طرح جماعت کیلئے وقف تھی۔ حسن بھائی کو فون کیا بھائی جان اسلام علیکم حسن بھائی اونچا سنتے تھے اور سننے والا آلہ استعمال کرتے تھے ۔ بھئی یہ عبداللہ کو سمجھائیں میں نے عبداللہ کو مکمل بات بتائی۔ حسن بھائی نے آصف لقمان قاضی صاحب جو قاضی حسین احمد صاحب کے صاحبزادے ہیں انکو فون کیا کہ چچا زاد چھوٹے بھائی کا جگر کا ٹرانسپلانٹ ہے ڈاکٹر نجم الحسن سے تعارف کروا دیں۔ مجھے ڈاکٹر نجم الحسن صاحب کا فون آگیا جی بھائی اور پھر انھوں نے بھائیوں کی طرح اس سارے عرصے میں خیال رکھا۔ جب کامیاب ٹرانسپلانٹ ہوگیا تو ہسپتال سے فارغ ہوئے تو ڈاکٹر نجم کہنے لگے بھائی آصف لقمان قاضی صاحب کو بتا دیجئے گا۔ میں نے حسن بھائی کو فون کیا بھائی جان سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ آصف لقمان بھائی کا شکریہ ادا کردیں۔ انھوں نے مجھے انکا نمبر دیا اور خود بھی انکو فون کرکے تعاون کیلئے شکریہ ادا کیا۔ اور میں نے بھی فون کرکے آصف لقمان قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جب بھی حسن بھائی کا فون اٹینڈ نہ ہوتا تو میاں ظہیر اصغر بھائی جو میرے چچا زاد بھائی رابطہ کروانے کا اہم کام کرتے تھے کیونکہ انکے پاس سب کے نمبر ہیں۔
حسن فاروق بھائی کو سننے میں کچھ دقت تھی اس لیے انکے بیٹے عبداللہ حسن طفیل سے رابطہ رہتا۔ پھر پتہ چلا کہ حسن بھائی کی سرجری ہے۔ بہت دعائیں کی انکی صحت کیلئے پھر ایک دن عبداللہ حسن طفیل کی فجر کے وقت فیس بک پر بلڈ کیلئے اپیل پڑھی تو دل فکر مند ہوگیا اسی دن 20 نومبر 2022 کو حسن بھائی کی وفات کا میسج آگیا۔ عبداللہ بیٹے نے بتایا کہ والدہ نے انکو آب زم زم کے پانی سے تیمم کرنے میں مدد کی اور ظہر کی نماز بھائی نے ادا کی اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے جنازے پر نہیں جاسکا۔ پر کچھ دن بعد پہلے محسن فاروق بھائی کی طرف دعا کیلئے حاضر ہوا اور پھر منصورہ زبیر فاروق بھائی اور بیٹے عبداللہ حسن اور باقی فیملی پاس دعا کیلئے حاضر ہوا بہت سی یادیں تازہ ہوئیں۔ زبیر بھائی فارمیسی کی فیلڈ میں تعلیم یافتہ ہیں ان سے کم ملاقات ہوئی پہلے وہ سعودیہ تھے اب پاکستان میں ہی ہیں اور منصورہ والے گھر میں زبیر فاروق بھائی اور حسن فاروق بھائی کے خاندان ساتھ ساتھ رہتے ہیں1990میں نیشنل کالج آف آرٹس گیا اور منصورہ جانا ہوتا تھا آج بھی وہ گھر اسی طرح سادہ اور پروقار ہے۔ واش روم جانا تھا تو تایا جی مرحوم کے کمرے کے ساتھ واش روم میں جانا ہوا وہی سادہ سا پرانا واش روم صاف ستھرا۔ اور کمرے میں ترتیب سے لگی کتابوں کے ریک تایا جی کی سادگی اور صفائی پسندی کو برقرار رکھے ہوئے تھے ۔ حسن بھائی جماعت اسلامی کے بہت سے کاموں کو دیکھتے. تھے۔ اور انکی جماعت کے اندر ذمہ داری میں شامل تھے۔ اکثر سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد کے گھروں میں بہت سی نشانیاں نظر آتی ہیں پر یہ گھر ہمیشہ کی طرح پروقار اور سادا ہے۔
حسن بھائی کے انتقال کے بعد اب جماعت سے رابطے کا ذریعہ عبداللہ حسن طفیل ہی ہیں جو دوران تعلیم جمعیت میں ناظم کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں ۔ اللہ تعالی ہماری ساری فیملی کو اس صدمہ کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق دیں آمین۔ اللہ تعالی حسن بھائی کے اگلے جہاں کے سارے مراحل آسان فرمائیں آمین ۔
سب دوستوں سے دعاوں کی درخواست ہے۔ جزاک اللہ خیر

Prev مرشد
Next وائرس اور اینٹی وائرس

Comments are closed.