میں اپنے آپ میں رھتا ھوں 

میں اپنے آپ میں رھتا ھوں 
تحریر محمد اظہر حفیظ

میں اپنے آپ میں رھتا ھوں بھلا کسی کو کیا کہتا ھوں۔ ھنستا ھوں روتا ھوں دکھ نہ کسی کو دیتا ھوں۔ میں اپنے اندر ایک دنیا بسا چکا ھوں ۔ مجھے جہاں مرضی قید کردو ۔ میں وھاں سے نکل جاوں گا۔ کبھی بیٹھے بیٹھے میں رینجرز سے درخواست کرتا ھوں مجھے کوئٹہ سے اگے زرغون جانا ھے اور بم پروف گاڑی میں بیٹھ میں زرغون کیلئے نکل جاتا ھوں راستے میں کوئلے کی کانیں سنسان پہاڑیاں جگہ جگہ رینجر روٹ لگائے کھڑی ھیں اور پھر سوچتا ھوں یار یہاں سکون نہیں ھے جہاز میں بیٹھتا ھوں ملتان چلا جاتا ھوں وھاں شاہ رکن عالم،شاہ شمس تبریز کے مزاروں پر فاتحہ پڑھتا ھوں صادق آباد نکل جاتا ھوں غازی مسجد بونگ جاتا ھوں اور تصویریں بناتا ھوں وھاں سے ڈی جی خان جاتا ھو گجر کے چکن تکے کھاتا ھوں اور آگے فورٹ منرو چلا جاتا ھوں وھاں جب بوریت ھوتی ھے جہاز میں ھوکر سوار کراچی چلا جاتا ھوں اور پھر وھاں سے ساحل سمندر سے ھوتا ھوا شاھجہاں مسجد، مکلی کا قبرستان دیکھنے چلا جاتا ھو پھر حیدآباد خیر پور کئی کئی کلومیٹر تک پھیلے کھجوروں کے باغ دیکھتا ھوں تصویریں بناتا ھوں گرمی سے جب تنگ آتا ھوں تو رات کے پچھلے پہر سرد علاقوں کی طرف نکل جاتا ھوں ناشتہ نو بجے جھیل سیف الملوک ناران میں کرتا ھوں اور پھر براستہ بابو سر ٹاپ قراقرم ھائی وے سے ھوتا ھوا ھنزہ علی آباد اور پھر کریم آباد پہنچ جاتا ھوں ھنزہ ڈی کیفے سے اخروٹ کا کیک کھاتا ھوں کافی پیتا ھوں اور ایگل نیسٹ کی طرف نکل جاتا ھوں ھنزہ کی رات کی تصویریں بناتا ھوں اور صبح صبح عطا آباد جھیل کی طرف نکل جاتا ھوں اس کی لمبی لمبی سرنگوں سے ڈرتے ڈرتے گزرتا ھوں اور پھر جھیل کنارے کھڑا ھوکر چائے پیتا ھوں۔ اور چل پڑتا ھوں پسو کونز کی طرف کچھ تصویر بنا کر گلیشیئر بریز ریسٹورانٹ سے کافی اور آڑو کا کیک کھاتا ھوں اور سوست باڈر کی طرف بڑھتا ھوں رات قیام کیا اور صبح صبح چائنہ بارڈر کی طرف نکل جاتا ھوں راستے میں مارخور کی تصویریں بناتا ھو خنجراب پاس پر جاتا ھوں منفی درجہ حرارت میں چائے پینا کیا مزا ھے۔ گھر کی کھڑکی میں بیٹھا پتہ نہیں کہاں کہاں پھرتا رھتا ھوں۔ کئی دفعہ تو گھر میں اے سی بند کرتا ھوں اور کبھی چلاتا رھتا ھوں جس طرح کا علاقہ ھو اسکے مطابق کمرے کا درجہ حرارت بدلتا رھتا ھوں کئی دفعہ بیوی کہتی ھے پسینہ کیوں آیا ھوا ھے خیریت ھے اسکو کیا بتاوں اس وقت تھرپاکر میں ھوں گرمی بہت ھے کئی دفعہ وہ پوچھتی ھے اظہر کیا سردی لگ رھی ھے جو ٹانگوں میں ھاتھ پھنسا کر سو رھے ھیں تو اس کو کیا بتاوں بابوسر ٹاپ پر کتنی سرد ھوا چل رھی ھے ۔ مجھ پر کوئی موسم اثر نہیں کرتے کیونکہ سب موسم میرے اپنے ھیں چاھوں تو جولائی میں برف باری کروادوں چاھوں تو دسمبر میں اے سی چلوادوں۔
یہ سب فلمیں میرے اندر میرے ساتھ ساتھ چلتی رھتی ھیں ساتھ بیٹھے اکثر پوچھتے ھیں کیا سوچ رھے ھیں کہاں گھوم رھے ھیں کیا بتاوں کتنے مزے میں ھوں میں بیٹھا گھر میں ھوتآ ھوں کبھی دفتر میں۔ پر ھوتا کہیں اور ھی ھوں۔
مجھے جو جگہ پسند ھو میں زیادہ تر وقت وھیں گزارتا ھوں پر کسی کو بتاتا نہیں۔ ھر کوئی مجھے ڈھونڈتا ھے پر ادھر ھوں تو ملوں۔
“جن کے اندر جہاں بستے ھیں
ان کو کیا کہ وہ کہاں رھتے ھیں”
اپنے اپنے جہاں بساو موجیں کرو اور لوگوں کو بھی موجیں کرنے دو۔
ضروری نہیں جو آپکا سوال ھو اسکا جواب بھی وھی ھو جو آپ نے سوچ رکھا ھو۔
میں ھوتا کہیں اور ھوں گھومتا کہیں اور ھوں۔
مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں میں مزے میں ھوں۔

Prev ھمارا فخر
Next بخار 

Comments are closed.