میں نشئی

 میں نشئی
تحریر محمد اظہر حفیظ

میں طرح طرح کے تجربے کرتا ھوں اور محسوس کرتا ھوں کہ میں اس دنیا سے نکل گیا ھوں۔
چند دن ھوئے میں نہر سویز کے کنارے لیٹا ھوا دھوپ کے مزے لے رھا تھا آتے جاتے جہازوں کو دیکھ رھا تھا ھاتھ ھلا رھا تھا کیا صاف ستھرا ماحول تھا سب طرف گورے اور گوریاں ھی تھے پہلی دفعہ پاکستان سے باھر آیا تھا کبھی لیٹا لیٹا نہر میں ھاتھ ڈال لیتا کبھی تھوڑا سا پانی پی لیتا کبھی منہ دھونے لگ جاتا سب لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رھے تھے مجھے بھی پتہ تھا جیلس ھو رھے ھیں پر مجھے کیا۔ میں نے اپنا دھوپ کا مزا لینے والا بستر بچھایا ھوا تھا اور سونے کی تیاری کررھا تھا۔ کبھی کبھی بحری جہازوں کے ھارن مجھے تنگ کر رھے تھے۔ گالیاں بھی دیتا رھا اور پتھر بھی پھینکے پر کوئی اثر نہیں ھوا۔
جب آنکھ کھلی محلے کی گندی نالی کے کنارے پڑا ھوا تھا منہ پر نالی کا گندا کیچڑ لگا ھوا تھا کچھ سمجھ نہیں آرھی تھی یہ کیا ھوا ھے۔ میں اٹھا خالی بوتلیں اکٹھی کرنا شروع کر دیں کچھ لوھے کے ٹکڑے مل گئے اور سوچا یہ مسجد بھی تو ھمارے پیسوں کی ھی بنی ھے اس کے تو ھر کام میں ثواب ھے اور اس کی پانی والی ٹوٹیاں کھولیں اور کباڑیئے کو بیچ اگلے ٹور کا ٹکٹ لیا کوئی پاکستان انڈیا کی جنگ کی بات کر رھا تھا سوچا آج اس کا بھی فیصلہ کروادیتے ھیں اور ھیروئن کا نشہ کیا اور میں ھیرو بن گیا ۔
میں نے ائیر فورس کو کہا کہ اب تم کہیں بھی جہاز اتار سکتے ھو اور اپنا ناک اور ماتھا جہاز لینڈ کرنے اور پارک کرنے کیلئے پیش کر دیئے۔ ایف 16، میراج،جے 17 تھنڈر آتے تھے میں ماتھا اور منہ برابر کر لیتا تھا وہ میرے ناک کو بطور رن وے استعمال کرتے اور ماتھے پر جہاز پارک کر دیتے۔ اب میں ایک چلتا پھرتا ائیرپورٹ تھا سوچا باڈر کی طرف جاتا ھوں پیٹرول کی بچت ھوگئی نزدیک سے جہاز اڑیں گے۔ اور ھندوستان بھی حیران ھوجائے گا یہ راتوں رات کیسے ائیرپورٹ بن گیا نہ کسی ریڈار پر آ رھا ھے اور نہ ھی نظر آرھا ھے۔ بس میں آسمان کی طرف دیکھ رھا تھا چلتا جارھا تھا ڈرتا تھا کہیں جہاز گر نہ جائیں آج پتہ چلا نشہ آپ کو جہاز نہیں ائیرپورٹ بنا دیتا ھے چلتے چلتے میں ایک بجلی کے پول سے ٹکرا گیا اور ھائے او میریا ربا اے کی ھوگیا جہاز آپس میں ٹکرا گئے سب پائلٹ سمجھے سونامی آگیا ھے جہازوں کو آگ لگ گئی میں فورا سیدھا لیٹ گیا تاکہ فائر بریگیڈ کو آنے میں دقت نہ ھو ھر طرف سائرن بج رھے تھے اور میری ٹانگوں پر پیٹ پر گاڑیاں بھاگ رھی تھیں اور آگ بجا رھیں تھیں مجھے گدگدی ھو رھی تھی پر میں ھنسا نہیں کیونکہ معاملہ جنگ کا تھا وہ بھی ھندوستان اور پاکستان کی۔ شکریہ بحریہ ٹاون آپکی بھی گاڑیاں آگ بجھانے والوں میں شامل تھیں۔ زیادہ پانی کے استعمال سے میری آنکھ کھل گئی شاید آج صبح کی تیز بارش تھی اور میں لئی کنارے لیٹا ھوا تھا۔
اب سارے ملک کے مسئلے میرے ھیں اور میں ھی حل کروں گا۔
ایک شخص میری حالت پر رحم کھا کر مجھے کچھ پیسے چندہ دے گیا۔
اور میں اگلے پراجیکٹ کی تیاری کرنے لگ گیا ۔ آج سارے مسائل حل ھوجائیں گے بس آپ نے گبھرانا نہیں ھے میرے پاکستانیو!
مجھے کچھ وقت دیں میں ان کو رولاوں گا۔
پھر مجھے پولیس نے گرفتار کر لیا جب ھوش آیا تو وجہ پوچھی تو کہنے لگے تو رھندا نہیں وڈا وزیراعظم کھڑے ٹرک پر چڑھ کر تقریریں کر رھا تھا۔ نقص امن کاخدشہ تھا۔ میری سرکار جان دیئو اس نوں 126 دن دیتے سانوں پہلے دن ھی گرفتار کرلیا۔ مجھے جانے دو میں نے جم جانا ھے۔

Prev ڈاکیا
Next شور بند کرو

Comments are closed.