میں ایک پنچھی

میں ایک پنچھی
تحریر محمد اظہر حفیظ

میں ایک پنچھی اڑتا پھروں منڈیروں پر جنگلوں، کھیتوں، میدانوں اور ایوانوں پر جو دیکھتا ھوں لکھتا ھوں پڑھتے جائیے اور شامل ھوجائے ان ساری کیفیات میں جو میں دیکھتا ھوں سنتا ھوں مجھے پتہ ھے کسی کا راز افشاء کرنا بری بات ھے۔ پر آپ کو ساتھ شریک کرنا بھی ضروری ھے، صبح صبح حصول رزق کیلئے میں اڑان بھرتا ھوں۔ روشنی کی پہلی کرن نمودار ھوتی ھے تو میں اللہ کا شکر بجالاتا ھوں زندگی کی ایک اور صبح عنائت ھوئی آغاز ذکر رب سے کرتا ھوں اور ھم ساتھی حصول رزق کیلئے نکل پڑھتے ھیں جیسے کہ مذدور شہر کے چوک میں بیٹھے ھوتے ھیں اور انتظار کرتے ھیں کوئی آئے اور لیجائے انکو کوئی تو بتائے حرکت میں برکت ھے بیٹھے رھنے سے کام نہیں ملتے اس کیلئے در بہ در نکلنا پڑھتا ھے، ھم بھی بہت محتاط اڑتے ھیں بچوں کو بھی بتاتے ھیں کسی لالچ میں مت آنا ورنہ کسی کے بچھائے جال میں پھنس جاو گے آسان رزق سے بچنا قید ھو جاو گے شکار ھوجاو گے۔ آج ایک گھر کی دیوار پر سستانے کیلئے بیٹھ گیا، ایک چھوٹی بچی باپ سے باتیں کر رھی ھے بابا آپ واپس کب آئیں گے۔ میری شہزادی دعا کرو کام مل جائے انشاءاللہ شام تک واپس آجاوں گا۔ بابا یہ گڑیا کیسی ھوتی ھے ۔ میری شہزادی بیٹی کی طرح بلکل تمھاری طرح ھوتی ھے ۔ کیوں تم نے کہاں سے سن لیا، بابا کل گلی میں ایک بچی کہہ رھی تھی اور رو رھی تھی میرے بابا روز مجھ سے وعدہ کرکے جاتے ھیں اور جب شام کو خالی ھاتھ واپس آتے ھیں تو کچھ نہیں کہتے بس مجھے دیکھتے ھیں اور منہ چھپا کر روتے رھتے ھیں۔ بیٹا کل لیکر آوں گے آج آٹا لے آیا تھا، آج چینی لے آیا تھا، اور میرے بابا جھوٹ نہیں بولتے ایک دن میری ماں سے کہہ رھے تھے تم اس کو آٹے کی گڑیا بنادو مجھے بہت شرم آتی ھے اس کا سامنا نہیں کر پاتا تو ماں کہنے لگی کبھی اگر مٹھی بھر بھی آٹا زیادہ ھوا تو میں اس کو گڑیا بنادوں گی آپ فکر نہ کریں بچے تو ضد کرتے ھی رھتے ھیں اس نے بھی ذکر ھی سنا ھے کونسا گڑیا دیکھی ھے۔ کچھ بھی لا دینا ھم اسکو بتائیں گے یہی گڑیا ھے ھاں اس کو بازار مت لیکر جانا اگر اس نے گڑیا دیکھ لی تو بہت مشکل ھوجائے گی ھم سے دو وقت کی روٹی پوری نہیں ھوتی اور اس کو گڑیا چاھیئے، میری برداشت سے باھر ھو رھا تھا میں وھاں سے اڑ گیا، بلند پرواز لینا شروع کی تو زمین دھندلی نظر آرھی تھی تو مجھے احساس ھوا کہ میں رو رھا ھوں اور مجھے صاف دکھائی نہیں دے رھا شاید آپکو بھی روتے میں ایسے ھی دکھائی دیتا ھو، پھر ایک دیوار پر جا بیٹھا سوچا آنسو خشک ھوجائیں تو اڑتا ھوں کوئی امیر گھر تھا بچی ماں سے لڑ رھی تھی شور مچارھی تھی یہ کوئی موبائل ھے جو میں سکول لیکر جاوں شرم آتی ھے میری ساری کلاس فیلوز کے پاس لاکھ روپے سے اوپر کے فون ھیں کوئی نوٹ ٹین لیکر آتی ھے اور کوئی آئی فون ایکس میں نہ سکول جاوں گی اور نہ ھی اکیڈمی بیٹے ایسے نہیں کہتے تمھارے بابا کو برا لگے گا، لگتا ھے تو لگے پتہ نہیں اللہ نے کیا سوچ کر آپکے گھر پیدا کردیا پرانی سی کاریں، بڈھے ڈرئیوار، مہینے میں بس دس دفعہ فاسٹ فوڈ،اس سے تو اچھا تھا نہ ھی پیدا ھوتی، ماں باپ کو کیا پتہ بچے کس کس ٹینشن سے گزرتے ھیں ویسے ایک بات کہوں اگر افورڈ نہیں کر سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا، بیٹا مہنگائی بہت ھوگئی ھے بابا بہت محنت کرتے ھیں پھر جاکر مہینہ گزرتا ھے، میں نے کی ھے کیا مہنگائی۔ بابا سے کہیں نوکری چھوڑ کر کاروبار کرلیں ھمارے اوپر احسان نہ ھی کریں تو اچھا ھے ھماری ضروریات پوری کرنا انکا فرض ھے اور انکو کرنی بھی چاھیئں۔ میری برداشت سے باھر ھو رھا تھا وھاں سے بھی اڑ گیا، اڑتا جارھا ھوں اور قبرستان میں کچھ دانے نظر آئے سوچا کچھ لے لیتا ھوں اور انکے لئے دعا بھی کر لیتا ھوں شکریہ ان سب کا جو اپنے گزرے ھوئے گھر والوں کیلئے دانے ڈال جاتے ھیں پہلے پانی بھی رکھتے تھے پھر اللہ بیڑا غرق کرے ڈینگی مچھر کا اس کے پلنے کے خوف سے حکومت نے ھر جگہ پانی رکھنے سے منع کردیا ھے، دانے چگنے کیلئے بیٹھا تو سسکیوں کی آواز آرھی تھی کوئی تازہ قبر تھی ایک بچہ بیٹھا رو رھا تھا، ابوجی آپ چلے گئے ھیں مما ھر وقت روتی رھتی ھیں پوچھتا ھوں کچھ نہیں بتاتیں بس روتی رھتیں ھیں، کل اپنی سہیلی کو کہہ رھیں تھی میرے لیئے نوکری دیکھو جیسے ھی میری عدت مکمل ھوتی ھے مجھے نوکری مل جائے جانے والا تو چلا گیا اب پہاڑ جیسی زندگی کیسے گزرے گی۔ چار بچے ھیں اور میرے نازک کندھے کیسے اس بوجھ کو اٹھاوں گی ابو جی اگر آپ میری بات سن رھے ھیں تو واپس آجائیں ھم بہت مشکل میں ھیں ممانی ماموں سے کہہ رھے تھے پہلے تھوڑے خرچے تھے اب یہ بلا بھی ھمارے سر آن پڑھی ھے۔ ماموں غصے میں آگئے ایسے نہیں کہتے کوئی اچھی بات پاس نہ ھو تو چپ رھتے ھیں ابو جی ماموں بہت اچھے ھیں پر وہ بھی ھم سے گلے مل کر روتے رھتے ھیں ، ابوجی اب آپ اھمیت کا اندازہ ھوا ھے کہ یتیمی کیا چیز ھوتی ھے سمجھ نہیں ارھی سکول جاوں گا کہ نہیں فیس کون دے گا سوچتا ھوں نوکری کرلوں مما سے کہتا ھوں تو رونے لگ جاتی ھیں چھوٹی سی عمر میں کتنے بڑے ھوگئے ھو،اب اس میں رونے والی کونسی بات ھے۔ کل مالک مکان کی بیوی آئی تھی کہ بہن پہلی دفعہ کرایہ لیٹ ھوا ھے ھمیں احساس ھے آپ کے نقصان کا پر ھمارا گگر بھی اسی کرائے سے چلتا ھے ۔ میرے شوھر بہت اچھے ھیں کہہ رھے تھے ایک مہینہ دیکھ لو ویسے یہ تو کرائے کا گھر ھے باجی کو چاھیئے عدت اپنی ماں کے گھر جاکر پوری کریں ھم گھر کسی اور کو دے دیں گے۔ ھم سے ان کی مشکلیں نہیں دیکھی جاتیں مما بس چپ رھیں کوئی جواب نہیں دیا، اچھا یہ بتائیں آپ سکون سے تو ھیں ھمارے وزیراعظم کہتے ھیں سکون بس قبر میں ملتا ھے۔ کیوں نہ ھم سب بھی مر جائیں اور سکون پالیں، میں بھی دانہ چنے بغیر ھی اڑگیا، سوچتا ھوں میں پنچھی ھوں مجھ سے یہ سب دیکھا نہیں جاتا جو اشرف المخلوقات ھیں وہ کیوں نے سوچتے۔ سب مشکل کیوں کرتے جارھے ھیں، کبھی کبھی دعا کرنے کو جی چاھتا ھے رب سے۔ کہ سب کو پنچھی بنا دے ھم تو کسی کو تکلیف نہیں دیتے، بس سنتے رھتے ھیں اور شکر بجا لاتے ھیں ھم انسان نہیں ھیں ورنہ کتنی مشکل زندگی ھوتی۔ ھمارا بھی ایک وزیراعظم ھوتا جو جنت کے وعدے کرتا اور چھوڑ جہنم آتا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ ھمارے لیئے مشکلیں لاتا اور کہتا، میرے پاکستانیوں گبھرانا نہیں ھے

Prev بادشاہوں کے شغل
Next آو بات کریں

Comments are closed.