پچاسواں سال

پچاسواں سال
تحریر محمد اظہر حفیظ

پچاسواں سال زندگی کا شروع ھوا اور ختم ھونے کا نام ھی نہیں لے رھا۔
تیس سال زندگی کے تو فوٹوگرافی کرتے گزار دیئے باقی بیس سال میں بھی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا۔
سنا تھا چالیس سال بعد عقل آجاتی ھے اور ادھر جو پہلے سے تھی وہ بھی چلی گئی۔
روز نیا کھیل نیا امتحان سنا تھا پڑھا تھا کہ اللہ باری تعالی ھمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرھا۔ میں دبتا ھی چلا جا رھا ھوں۔ دن چوبیس گھنٹے کا ھے اور کام اڑتالیس گھنٹے کے۔ بہت کوشش کی وقت کو مینج کر سکوں پر ھمیشہ چوبیس گھنٹے لیٹ ھی ھوتا ھوں۔ مجھے نہیں پتہ اس کو کیسے درست کرنا ھے۔
سب غلط ھورھا ھے ۔ جہاں جاگنا ھے وھاں سوجاتا ھوں جہاں سونا ھے وھاں جاگتا رھتا ھوں۔ سب بے ترتیب ھوگیا ھے۔ اور مجھ میں اھلیت نہیں ھے اس کو ترتیب میں لانے کی۔
مجھے ھنسنا اور رونا دونوں بھول چکے ھیں عجیب صورتحال ھے خاموشی کا شور مجھے سونے نہیں دیتا۔
گھڑی کی ٹک ٹک ایسے دماغ پر ھتوڑے برسا رھی ھے جیسے پہاڑوں پر بلاسٹنگ ھورھی ھو۔ باھر پولیس کی گاڑیاں سائرن بجا رھی ھیں جیسے جنگ کا زمانہ ھو اور سائرن بج رھے ھوں۔
مجھے تو پولیس کی گاڑی کی روشنی ھی بہت تنگ کرتی ھے۔ اور یہ سائرن کچھ نہ پوچھئے ۔ رات کے پچھلے پہر کوئی گاڑی والا بلند آواز میں میوزک بجا رھا ھے ھم دن میں چلائیں تو پتہ چلتا ھے 144 دفعہ لگی ھوئی ھے اس وقت شاید دفعہ والے دفع ھوگئے ھیں۔ سکون ھم نے ختم کرلیا ھے۔ بہت محنت کی ھے اس مقام تک پہنچنے میں۔ دنیا جہاں کی ھر ایجاد کو منفی طور پر استعمال کر لیا ھے۔
ایسا کیا کیا جائے جو سب کچھ ختم ھوجائے اور بنیادی زندگی پھر سے شروع ھوجائے۔
پر کچھ بھی نہیں ھورھا ۔ ھندوستان اور پاکستان اصیل ککڑ کی طرح شیشے کے اگے کھڑے اپنے آپ سے لڑ رھے ھیں اپنے آپکو اپنا دشمن سمجھ رھے ھیں اور شیشے سے لڑ لڑ لہولہاں ھو رھے ھیں۔ اور بھول گئے ھیں کہ کوئی ایٹم بم ،کوئی الخالد ٹینک،کوئی جے ایف تھنڈر 17 جہاز ھم نے کس دن کیلئے بنائے ھیں۔
لاو چلا کر دیکھتے ھیں دشمن کو سمجھا کر دیکھتے ھیں۔
جنگ ھو نہیں رھی پر اس کا کتنا شور ھے پتہ نہیں اگر ھوگئی تو اس کا شور کم ھوگا یا زیادہ۔
کل ایک دوست کہہ رھے تھے لاکھوں مسلمان شہید ھوچکے ھیں اور امریکہ کہتا ھے کہ ھمارا فیصلہ غلط تھا محترم دوستو فیصلہ اسکا درست تھا اسلحہ بیچنے کا اور اس نے بیچا خوب بیچا دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی کیسا مزیدار کام ھے مرنے والا اور مارنے والا دونوں امریکی اسلحہ استعمال کر رھے تھے۔ امریکہ بہت شاندار پالیسی کا حامل ھے وہ پیٹرول خریدتا ھے اور لوھا،پلاسٹک،بارود بیچتا ھے ۔ پیٹرول زندگی کا پہیہ گماتا ھے اور یہ سب زندگی ختم کرتا ھے ۔ تیل کےکنویں مسلمانوں کے ھیں تیل امریکی کمپنیاں نکالتی ھیں اور بیچتی ھیں یہ سب کیا ھو رھا ھے کیا کسی کو سمجھ نہیں آرھا۔
یہ میڈیا وار کیا ھے ۔ میڈیا کیا دکھا رھا ھے کیا دکھانا چاھتا ھے۔ یہ کونسا کلچر پروان چڑھ رھا ھے کارٹون ھندی میں کیوں ھیں کیا ھم اردو میں ڈبنگ بھی نہیں کر سکتے ۔ کتنے بے بس ھیں ھم ۔ ایرانی ڈرامے چینی ڈرامے سب اردو میں ڈب ھو سکتے ھیں تو کارٹون کیوں نہیں ۔
اگر باقی تبدیلی مشکل ھے تو کم از کم ڈورے مون تو ھندی سے اردو میں تبدیل کر دیجیئے۔
میں باقی ماندہ زندگی آپکا احسان مند رھوں گا۔شکریہ

Prev اگلا جنم
Next فرشتے

Comments are closed.