پگڑی

پگڑی
تحریر محمد اظہر حفیظ

میں گاوں میں رھتا تھا لائلپور میں غلام محمد آباد شاھین چوک دیکھا تھا کیونکہ میرے نانا جی ، خالہ اور ماموں وھاں رھتے تھے اور حاجی آباد دیکھا تھا وھاں میرے چچا جی رھتے تھے۔ اس کے علاوہ میری بہت بڑی سیر نزدیکی قصبہ ڈجکوٹ جانا ھوتی تھی وہ بھی میلہ یا بیماری کی صورت میں۔ میرا بڑا دل کرتا تھا جب دوستوں بزرگوں سے سنتا تھا کہ گھنٹہ گھر اور اس کے اردگرد سات بازار ھیں جا کر دیکھوں۔ بہت عرصہ تک نہیں دیکھ سکا ۔ تھڑے پر بیٹھے بزرگ جب باتیں کرتے تو میں بھی بیٹھ جاتا انکی باتیں سنتا اور موقع غنیمت جان کر سوال کرتا۔ چاچا اے گھنٹہ گھر کتنا اونچا اے۔ پتر جی اس تے ٹائم ویکھیے تے سروں پگڑی ڈیگ پیندی اے۔ اب مجھے دیکھنے کا اور شوق پیدا ھوگیا ایک دن ابا جی امی جی سے کہنے لگے چوھدری صاحب میں امین پور بازار تک جانا اے میں بھی بیچ میں کود پڑا ابا جی یہ کدھر ھے بابو اے گھنٹہ گھر کے ساتھ ھے۔ابوجی میں وی ویکھن جانا اے۔ یار توں کی کریں گا ویکھ۔ میں ابا جی کو بتایا میں دیکھنا چاھتا ھوں لوگوں کی پگڑیاں کیسے گرتی ھیں ۔ نہ میرا پتر کسی کی پگڑی گر رھی ھو تو اس کو تماشہ نہیں بناتے اس کی مدد کرتے ھیں۔ جی اچھا جی۔ ابا جی میں نے دیکھنا ھے گھنٹہ گھر۔ اچھا چل تجھے دکھا کے لاتا ھوں ۔
پھر ابا جی مجھے ساتھ لے گئے اور مجھے سارے بازار اور گھنٹہ گھر دکھایا۔ نہ میرے سر پگڑی تھی اور نہ کسی اور کے سر پر مجھے یہ سب سے اونچا مینار نما گھنٹہ گھر پسند بہت آیا اور ساتھ شکر بھی ادا کیا کہ کسی کی پگڑی گرتے ھوے نہیں دیکھی ورنہ ابا جی ناراض ھوجاتے۔
میں گاوں واپس آیا اور سب کو بتاتا تھا میں نے گھنٹہ گھر دیکھا ھے ریل بازار، امین پور بازار، کچری بازار سب بازار دیکھے ھیں تو ایک چاچا جی بولے پتر اوئے مینار تے ایک ھی ھویا اے پادگار۔ جس نوں مینار پاکستان یا فر یادگار پاکستان کہتے ھیں ۔ اس دی اونچائی اننی زیادہ اے کہ کی دساں وڈے تو وڈا جوان وی اپنی پگڑی گرن تو نہیں بچا سکدا۔
اب نوا شوق پیدا ھو گیا۔یادگار پاکستان ویکھن دا، میں اس کی معلومات حاصل کرنے لگ گیا۔ انہی چاچا جی سے پوچھا چاچا جی یادگار ھے کتھے کرکے۔ اے لائلپور وچ اے نہیں پتر اوئے اے لاھور وچ اے۔او کننی دور اے ۔چچا ظہیر کی شادی تھی ھم بارات کے ساتھ لاھور گئے پر مجھے یادگار کہیں نظر نہیں آیا ۔ ابا جی یہ یادگار کدھر تھا۔ یار تو سویا ھوا تھا گزر گیا۔ بہت افسوس ھوا اپنی نیند پر۔ کی گل اے اداس کیوں ھوگیا۔ جی مجھے یاد گار ویکھن دا بڑا شوق اے اچھا کسے دن ویکھن آجاواں گے گرمیوں کی چھٹیوں میں ابا جی ھمیں لاھور لے گئے۔ باجی امتیاز اور منظور بھائی کے گھر شاھدرہ۔ لیکن یادگار کہیں نظر نہیں آیا۔ ابا جی یادگار۔ یار کل ویکھاں گے ۔ ساری رات میں سوچتا رھا یہ کتنا اونچا ھوگا۔ کیسا ڈیزائن ھوگا۔ اگلی صبح ھم تینوں بہن بھائی ابا جی ساتھ عبدالقیوم بھائی کی کار پر سیر کیلئے نکل گئے راوی بہت بھرا ھوا تھا آنکھیں نیم بند کے ساتھ پل پار کیا گاڑی چل رھی تھی ڈر تھا یادگار گزر ھی نہ جائے اور دریا کا ایک اپنا خوف۔ بند روڈ پار کی اور راوی روڈ پر چڑھے تو سامنے چار مینار سرخ رنگ کے نظر آئے ابو جی اے تے چار نے یار صاحب یہ بادشاھی مسجد ھے صبر کر یادگار بھی آنے ھی والا ھے۔ اور ساتھ کہنے لگے او ویکھ بائیں طرف سامنے مینار پاکستان تھا ھن خوش اے میرا صاحب میں چپ ھی رھا کی گل اے یار ابو جی نزدیک سے دیکھنا ھے ابو جی نے ڈرائیور سے کہا اور ھم گاڑی کھڑی کرکے پارک میں داخل ھوگئے۔ میں جیسے جیسے نزدیک جارھا تھا مینار پاکستان بڑا اور بڑا ھوتا جارھا تھا۔ اب مجھے اندازہ ھوا گھنٹہ گھر تو بہت چھوٹا ھے۔ ابا جی بتانے لگے یہ اس کی پتیاں سب صوبوں کی نمائندگی کرتی ھیں اور مجھے افسوس تھا کہ میرے پاس پگڑی نہیں ھے کیونکہ مجھے اجازت نہیں تھی کہ کسی اور کی پگڑی گرتے دیکھوں اس لیئے سوچا اپنی پگڑی ھوتی تو آزما لیتا۔ پھر ھم بادشاھی مسجد،قلعہ اور چڑیا گھر ،واپڈا ھاوس دیکھ کر واپس آگئے۔ لیکن اب میرا سر فخر سے بلند تھا کہ میں نے یادگارپاکستان کو دیکھ لیا ھے۔
پھر ھم اسلام آباد ھجرت کر آئے اور پتہ چلا کہ فیصل مسجد بن رھی ھے جس کے مینار تو یادگار سے بھی اونچے ھیں اور ان کو میں نے بنتے دیکھا، پھر نیشنل کالج آف آرٹس لاھور داخلہ ھوگیا فرسٹ ایئر میں فینسی ڈریس شو تھا۔میں نے دھوتی کرتہ پگڑی اور کھسہ پہنا ۔ پگڑی بہت مشکل سے گاوں سے دادا جی کی منگوائی اور ایچیسن کالج میں ایک ھی شخص تھا لاھور میں جس کو پگڑی باندھنا آتی تھی اس سے دو سو میں پگڑی بندھوائی۔ کالج سے فارغ ھو کر رکشے میں بیٹھ سیدھا یادگار پہنچا۔ اور بلکل یادگار کے پاوں میں کھڑا ھوکر اوپر دیکھا پر پگڑی نہیں گری۔ تو سمجھ آیا یہ بس محاورہ ھی ھےکہ اس کی اونچائی اتنی ھے کہ پگڑی گر جاتی ھے۔ ورنہ جب تک انسان خود کوشش نہ کرے اس کی پگڑی نہیں گر سکتی۔ 
احتیاط کیجئے اپنی پگڑی سنبھالیں اور کسی دوسرے کی گرانے کی کوشش نہ کریں۔ آجکل سارا پاکستان سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی پگڑی گرانے کی کوششیں کررھا ھے۔ کیا آپ کے والد نے آپ کو کبھی نہیں بتایا کہ یہ کھیل اچھا نہیں ھے کسی کی پگڑی اچھالنا یا گرانا۔ سب کی عزت کریں اور عزت کروائیں بے شک اللہ سب کی عزتیں رکھنے والے ھیں۔

Prev ھسپتال
Next اختلافی نوٹ

Comments are closed.