چھوٹی لائن کیسے ھوئی بڑی

میری والدہ بارہ جون دوھزار گیارہ میں انتقال کر گئیں تو میرے محترم عزیز از جان دوست سید آصف حسین زیدی تشریف لائے گلے لگ کر خوب روئے اور کہنے لگے یار آج تم بڑے ھو گئے ھو خیال رکھنا سب کا میں بولا شاہ جی میں تو گھر میں چھوٹا ھوں تو کہنے لگے یار جب بڑی لائنیں مٹ جائیں تو چھوٹی بڑی ھو جاتی ھیں تو بات سمجھ میں آئی، ھم سب دوست شاہ جی کو چھوٹو کہہ کر بلاتے تھے جب شاہ جی کے والد محترم پروفیسر شاھد حسین زیدی صاحب کا انتقال ھوا میں گیا شاہ جی سے لمبی آنسو بھری جپھی ھوئی اور شاہ جی کو اس دن کے بعد میں نے چھوٹو نہیں کہا، شاہ جی کی امی کا فون آیا اظہر کل چہلم ھے آپ ضرور آئے گا چھوٹو بہت اکیلا ھے، میں گیا تو چھوٹو یار تو کیوں آیا ھے میاں صاحب کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں میں نے کہا مرشد ماں جی کا حکم تھا انکار کیسے کرتا، دوسال پہلے سترہ جنوری دوھزار پندرہ ،شاہ جی کا میانوالی کے نزدیک ایکسڈنٹ ھو گیا اور شاہ جی اس دن سے بستر پر ھیں انکھیں کھولنے کے علاوہ ھلکا سا ھاتھ ملاتے ھیں اس دن سے میرا لاھور سے دل ھی اٹھ گیا، اس حالت میں سب سے بڑا حوصلہ اماں تھیں انھوں نے بہت حوصلے اور ھمت سے شاہ جی اور انکے بچوں کو سنبھالا اللہ انکو اجر عظیم عطا کریں امین، شاہ جی کی بیوی کا ایک دن فون آیا بھائی اماں گر گئیں انکی ھڈی ٹوٹ گئی ھے صحت کے لئے دعا کریں دل بہت پریشان ھوا. اماں ھمت والی خاتون تھیں جلد چلنا شروع کردیا، شاہ جی کی گھر، والی کا فون جب بھی آتا ھے دل پریشان ھو جاتا ھے میرے الفاظ ھوتے ھیں اللہ خیر کریں، فون آیا جی بہن بھائی اماں کی طبیعت ٹھیک نہیں انکے دماغ میں کینسر ھے اور تیزی سے بڑھ رھا ھے ایک دن صبح ساڑھے نو بجے لاھور سے فون آیا فون اٹھایا بھائی آپ نے واٹس ایپ چیک نہیں کیا اماں کا انتقال ہوگیا دس بجے جنازہ ھے میں نہیں پہنچ سکتا تھا معزرت کی اور دل بہت پریشان ھوگیا اکیلا بیٹھ کے رویا بھی اور ساری انکی زندگی کی کوشش سامنے گھومنے لگی کیسے انھوں نے پروفیسر صاحب جیسے بااصول انسان کے ساتھ زندگی گزاری گھر کیسے بنائے بچے کیسے پالے اور چھوٹو کی حرکتیں کیسے برداشت کی اور انکے دماغ کے کینسر کو کوئی بھی ماں باپ سمجھ سکتا ھے جب جوان بیٹا دوسال سے بستر، پر پڑا ھو بغیر کوئی ھل جل تو ماں پر کیا گزرتی ھے افسوس کرنے گیا پر چھوٹو اب پہلے سے بھی بڑا ھو چکا تھا بستر پر انکھیں کھول کر لیتا میری بہن نے پوچھا بابا دیکھیں کون آیا ھے تو مرشد نے آْنکھیں جھپک کر بتایا مجھے پتہ چل گیا بہت مثبت نشانیاں ھیں میں نے عرض کی مرشد اب اس سے بڑا کیا ھونا ھے اٹھ جائے نہ شاہ جی کے ماں باپ رھے نہ میرے اب ھم دونوں بڑے ھو چکے ھیں، میری زندگی کے تمام مشورے شاہ جی کے ساتھ ھی ھیں میرے فوٹوگرافر ھونے میں شاہ جی کی کوششیں مجھ سے زیادہ ھیں پہلی بار مجھے نیلم ویلی بھی شاہ جی ھی لے کر گئے، میرے کیمرہ خریدنے سے پہلے سب ریسرچ شاہ جی کی ذمہ داری تھی کمپیوٹر کونسا، لینا ھے پروسیسر کیا ھو ھارڈ ڈسک کونسی اور ریم کونسی یہ سب شاہ جی کا کام تھا میں آسان زندگی گزارتا تھا بلاناغہ میں شاہ جو، کو فون کرتا اور فوٹوگرافی کے علاوہ شائد کمپوٹر پر بات ھو، جاتی تھی، شاہ جی کو جب بھی وقت ملتا اسلام آباد تشریف لاتے اور خوب آوارہ گردی ھوتی، ساری ساری رات فوٹوگرافی اور فوٹوشاپ پر بات ھوتی، میری امی جی ابا جی سے شاہ جی سامنے کسے نو غصے نہ ھونا، میں ابا جی اور آصف شاہ جی مری روڈ پر جارھے تھے اور ایک لڑکا ون ویلنگ کر رھا، تھا ابو جی کو بڑا غصہ آرھا تھا لیکن شاہ جی کے احترام میں چپ گاڑی کا شیشہ کبھی نیچے کریں کبھی اوپر وہ موٹر سائیکل والے کو اپنی زبان میں سمجھانا چاہ رھے تھے لیکن چپ کا مشورہ امی جی کا تھا، کہنے لگے یار گڈی سائیڈ تے لا یا مینو، لا دے یا شاہ ھونا نوں، اباجی کی ھوگیا یار ھون کوئی غلط کم کرے اسی انوں سمجھا وی نہیں سکدے شاہ جی چاچاجی سمجھاو سمجھاو پھر ابا جی نے موٹر سائیکل والے کو سمجھا دیا، غالباََ 1997کا رمضان تھا چھوٹو، کی امی کا فون ھمارے گھر آیا میری والدہ نے فون سنا انہوں نے تعارف کروایا میں چھوٹو کی امی بول رھی ھوں امی جی نے حال احوال پوچھا اور انھوں نے پوچھا اظہر کدھر ھے امی نے کہا اعتکاف پر ھے آنٹی نے فون بند کر دیا یہ کہہ کر شائد رانگ نمبر ھے، دوبارہ فون ملایا امی جی سے پوچھا اظہر کا گھر ھے امی نے کہا ھاں جی اچھا وہ کدھر ھے امی جی بتایا تو ھے اعتکاف پر، اچھا چھوٹو آیا ھوا ھے اسلام آباد امی جی نے بتایا ھماری طرف تونہیں آیا اور انہوں نے فون سلام دعا کے بعد، بند کردیا افطاری وقت بھائی بتایا یار چھوٹو کی امی کا ایسے فون آیا تھا اچھا تو پتہ چلا کہہ چھوٹو صاحب شادی کرنے ایل کلاس فیلو کے ساتھ تنویر رحمن کی سوزوکی ایف ایکس جو بہت مشکل سے مین بولےوارڈ سے لبرٹی جاتی تھی اس کار پر روجھان جمالی بلوچستان چلے گئے ھیں اور وھاں جا کر شادی فرمائی ھے، بات ھو رھی تھی چھوٹی لائن سے بڑی لائن بننے کی، پچھلے جمعے بہت محترم دوست شکیل اعوان اور یوسف اعوان بھی بڑے ھو گئے انکے والد محترم اس دنیا فانی سے کوچ کر گئےدونوں بھائیوں سے مل کے دل کھول کر رویا اور انکے بڑے ھونے کی نوید بھی انکو سنائی حاجی کرم الہی اعوان بہت محترم بابے تھے میرے ٹی وی کے ساتھی ھونے کے ساتھ میرے عزیز دوستوں کے والد بھی تھے، میں نے چند لمحوں میں شکیل بھائی اور یوسف بھائی کو بڑے ھوتے دیکھا، اللہ سب مرحومین کے دراجات بلند کریں انکے اگلے جہان کی منزلیں آسان کریں آصف شاہ جی کو صحت کاملہ عطا فرمائیں آمین میں آپنی تصویریں شاہ جی سے ڈسکس کرنا چاہتاھوں ان دوسال میں بہت سا کام کیا انکو دکھانا چاھتا ھوں، انکی جلد صحت یابی کے لئے سب دوستوں سے دعا کی درخواست ھے شکریہ

Prev شوگر اور میں
Next زندگی 

Comments are closed.