کینوس

کینوس

تحریر محمد اظہر حفیظ

جب سے جنم لیا ھے جس کا جو دل آتا ھے، بناتا ھے، مٹاتا ھے، مسکراتا ھے، روتا ھے، گالی دیتا ھے، اور چلا جاتا ھے جیسا کہ میں اس کا کینوس ھوں، اور پھر اگلی دفعہ سفید رنگ پھیر کر دوبارہ سوکھنے کا انتظار کرتا ھے ، حالانکہ پرانی پینٹنگ کے زخم نیچے سے نمایاں نظر آرھے ھوتے ھیں، وہ ان کو نظر انداز کرتا ھے اور دوبارہ سے ھنستی ھوئی پرانی پینٹنگ پر ایک رونے والا چہرہ پینٹ کرنا شروع کردیتا ھے، عجیب لوگ ھیں کینوس کو بھی انسان سمجھتے ھیں کبھی ھنسا دیا کبھی رلا دیا اور کبھی ڈانٹ کر چپ کروادیا، ھمیشہ ھی دیکھا کہ پینٹنگ سے پہلے ایک شاندار ڈرائنگ ھوتی ھے پھر رنگ بھرے جاتے ھیں، میری سب سے چھوٹی بیٹی کہتی ھے بابا ڈرائنگ بہت بورنگ کام ھے میں کینوس پر ڈائریکٹ رنگ لگاوں گی مجھے کوئی روکے نہ جی اچھا میری بیٹی اسے کیا بتاوں ساری دنیا ھی اب ڈائریکٹ رنگ لگانے پر تلی ھوئی ھے، کل ایک بڑے انسان کا انٹرویو سن رھا تھا کہہ رھے تھے یونیورسٹیاں بند کردیں بس ھنر سکھائیں، جب باپ گھر میں فلم میکر ھے، فوٹوگرافر ھے، پینٹر ھے تو اولاد کے چار سال ضائع کرنے کی کیا ضرورت ھے، خود ھنر سکھاو، مجھے ایسے لگ رھا تھا جیسے وہ اپنے یونیورسٹی نہ جانے کی صفائی پیش کر رھے ھوں، یا پھر میری چھوٹی بیٹی کے ھم خیال ھوں سیدھے رنگ لگاو، ڈرائنگ ایک بورنگ کام ھے ، کچھ اساتذہ کو پروجیکٹر کی مدد سے ڈرائنگ کرتے دیکھا اور کچھ کو اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے دیکھا، پروجیکٹر کا تو اب بھی نام ھے پر اس کی مدد سے ڈرائنگ کرنے والوں کے نام کسی کو یاد نہیں ھیں اور جو خود ڈرائنگ کرتے تھے وہ خود بھی زندہ ھیں اور ان کے نام اور کام بھی زندہ ھیں، کام نہ کرنے کے بھی لاکھوں بہانے ھیں اور سب سے کمزور بہانہ میرا موڈ نہیں ھے، ڈیزائن کی دنیا کم از کم بہانوں سے پاک ھے وقت پر کام دینا ھوتا ھے اور اس میں کوئی بہانہ نہیں ھوتا بس کام کرنا ھوتا ھے بے شک آپ بستر مرگ پر ھی کیوں نہ ھوں، فائن آرٹسٹ بڑے مزاج کے لوگ ھوتے ھیں ، میری بڑی بیٹی بھی فائن آرٹسٹ بن رھی ھے بطور باپ اس کے موڈ کو ھر لمحہ دیکھتا ھوں ، بابا جی اسائنمنٹ کر رھی ھوں، بابا جی موڈ نہیں ھے، جو فائن آرٹسٹ اپنے اندر سے موڈ نکال دیتے ھیں انکی پینٹنگ ، سکلپچر، منیچر، پرنٹ میٹنگ کی فیکٹریاں لگی ھوئی ھیں، کچھ دوستوں کے کام کی مقدار اتنی زیادہ ھے جیسے ان کے کئی ھمزاد ھوں اور وہ کئی کئی ھاتھ رکھتے ھوں، تو ممکن ھے اتنا کام کرنا، کہ ھر مہینے نمائشیں ھو سکیں، کچھ فنکار تو کام آگے ٹھیکے پر دے دیتے ھیں بس دستخط خود کرتے ھیں، چلو اچھا ھے کچھ تو خود کرتے ھیں، ورنہ ایک خوش نویس بھی رکھ لیں دستخط کیلئے انکے لئے کیا ممکن نہیں ھے، اگر ممکن ھو تو ھر انسان اپنے اپنے کینوس پر کام کرے اور دوسروں کے کینوس خراب کرنے کی بجائے خالی رھنے دے تو اس میں کیا حرج ھے، ضروری تو نہیں ھر کینوس پر کچھ اچھا یا برا بنا ھو، خالی کینوس کی بھی تو ایک زندگی ھے صاف ستھری ، اسی طرح اس کے رھنے میں آپکو کیا اعتراض ھے، مجھے سمجھ نہیں آتی دوسروں کے کینوس کو چھیڑنے کا حق آپکو کس نے دیا ھے، یہاں کیوں بیٹھے ھو، اتنی جلدی سوگئے، رات دیر تک کیوں جاگتے ھو، تصویریں کیوں بناتے ھو، تصویریں کیوں نہیں بنا رھے، نمائشیں کیوں کرتے ھو، نمائش کا فائدہ کیا ھوتا ھے، اتنے کیمروں کا کیا کرتے ھو، آرام کیوں نہیں کرتے، اتنی نوکریاں کیوں کرتے ھو، بچے کتنے ھیں، اوھو بیٹا نہیں ھے، سب بیٹیاں ھی ھیں، گھر اپنا ھے، فیملی ساتھ کیوں رھتے ھو، گاڑی کونسی ھے، پیٹرول کی ایوریج کیا ھے، تنخواہ کتنی ھے، آج کیا ناشتہ کیا، کپڑے ایسے کیوں پہنتے ھو، دفتر کب جاتے ھو، گاڑی گندی کیوں ھے، شوگر کیلئے کریلے کھایا کریں، کیمرہ مررلیس لے لیں، گاڑی ھائیبرڈ لے لیں، آپ کے پاس آٹومیٹک گاڑی ھونی چاھیئے،

دوستو جب اس طرح کے سوال میں نہیں کرتا تو آپ کی پرابلم کیا ھے، مجھے میرے کینوس کے ساتھ جینے دو اور اپنے رنگ اپنے پاس سنبھال رکھو، مجھے انکی ضرورت نہیں، انشاءاللہ مجھے میرا رب وھاں پہنچادیں گے جو میرے لئے بہترین ھے، شکریہ

Prev چائے دی لسی
Next میں کیا کروں

Comments are closed.