گھڑی

گھڑی

تحریر محمد اظہر حفیظ

زندگی میں پہلی گھڑی والد صاحب کی دیکھی جو تایا جی انور سعودی عرب سے لائے تھے سیکو کوارٹز کی گھڑی تھی ایک دن وہ بس میں کسی نے اتار لی پھر ابا جی نے دوسری گھڑی بھائی منظور سے سعودی عرب سے منگوائی وہ بھی سعودیہ سے ہی آئی تھی۔ ابا جی کے خالہ زاد بھائی ظفر صاحب سعودیہ میں گھڑیوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ پر پہلی مرتبہ ماربل کی بنی گھڑی دیکھی بڑی حیرانگی ہوتی تھی۔ پھر ہم گاوں سے شہر راولپنڈی آگئے اور ابا جی بڑے بھائی کیلئے سٹیزن واچ لائے جو غالبا 800 روپے کی آئی تھی اور پشاور باڑے سے لائی گئی۔ میرا بھی دل کرتا کہ میرے پاس بھی گھڑی ہو ایک دن ابا جی سے کہہ دیا وہ میرے لیے گھڑی لے آئے اس کا شیشہ ابھرا ہوا تھا۔ بھائی ابا جی اس نے شیشہ توڑ لینا ہے اور وہ گھڑی خود لے لی اور مجھے پہلے والی دے دی، زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ جب بھی لائلپور جاتے چچا نواز کے بیٹوں نے ہر دفعہ نئی گھڑی باندھی ہوتی کیونکہ پرانی کا پوسٹمارٹم ہوچکا ہوتا تھا ۔ ان تینوں بھائی نے گھڑیوں کو بہت سبق سکھائے۔

ساتویں جماعت میں تھے تو جامعہ محمدیہ نیو کٹاریاں مارکیٹ راولپنڈی میں نماز جمعہ پڑھ رھے تھے کہ میرے سکول فیلو محمد علی سنتوں کی ادائیگی کے دوران نماز بار بار وقت دیکھ رہا تھا ۔ جب اس نے سلام پھیرا تو عرض کی محمد علی یہ نامناسب بات ہے نماز میں گھڑی دیکھنا۔ اس پر محمد علی نے کہا یار ایک بات یاد رکھنا بندے کی گھڑی اگر اپنی ہو تو وقت دیکھنے کی اجازت ہے، یوں ایک نیا دینی مسئلہ وجود میں آیا۔

پھر بہت سی گھڑیاں خریدیں کیسیو کی سینسر والی گھڑیوں کا شوق ابا جی کی زندگی کے ساتھ ساتھ رہا اب بہت مہنگی لگتی ہیں۔

1995 سردار کیمیکلز کا کیلنڈر بنانا تھا میرے بڑے بھائیوں جیسے بھائی سردار محمود صاحب کہنے لگے بیٹے جناح سپر جاو بی ایچ ایس سٹور والوں کو کہہ دیا ہے میری چھ گھڑیاں ان سے لے لو اور چھ صفحے کا دیوار والا کیلنڈر بنا دو۔ میں گیا انھوں نے رولیکس کی چھ گھڑیاں نکال کر میرے حوالے کیں اور رسید پر دستخظ کرنے کیلئے میری طرف بڑھائی تو قیمتیں پندرہ لاکھ سے پینتیس لاکھ تک فی گھڑی کی قیمت تھی۔ ایک دفعہ ٹانگیں ہی کانپ گئیں۔ عرض کی جناب گھڑیاں ادھر ہی رکھیں میں سٹوڈیو یہیں لیکر آتا ہوں ۔ اور پھر انکی دوکان کے اندر ہی شوٹ کیا۔ سوچا اگر کسی نے چھین لیں تو تاحیات کیلنڈر بنا کر بھی پیسے پورے نہیں کرسکوں گا۔

اب ہم خود چاچا اور بابا بن چکے ہیں ہر مہینے چھ بچوں کیلئے گھڑیاں لانا ایک معمولی بات ہے 2002 میں بارانی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ صبح نو بجے سے بارہ بجے تک کلاس ہوتی تھی ۔ میں وقت پر کلاس لینے پہنچا تو یونیورسٹی بند تھی یہاں تک کہ گارڈز بھی نہیں تھے۔ میں سمجھا چھٹی ہے اور دفتر چلا گیا ۔ جب یونیورسٹی کھلی تو انھوں نے گھر فون کیا سر نہیں آئے، گھر والوں کی دوڑیں لگ گئیں ہسپتال ، تھانے سب چیک کرلیے پر میں کہیں نہیں تھا، دفتر فون کیا تو انھوں نے بھی کہا ابھی نہیں آئے کیونکہ میں یونین کی ایک تقریب میں بیٹھ گیا تھا۔ وہاں ایک لڑکا بھاگا بھاگا آیا سر گھر رابطہ کریں کوئی ایمرجنسی ہوگئی ہے کئی بار فون آچکا ہے، گھر فون کیا بھائی نے خوب عزت کی یار یونیورسٹی کیوں نہیں گئے ۔ بھائی گیا تھا یونیورسٹی بند تھی ۔ اچھا پھر انکا فون کیسے آیا، جب گھڑی پر نگاہ پڑی تو اندازہ ہوا دو سالہ بیٹی نے اپنے بابا کو وقت سے آگے کرنے کے چکر میں گھڑی آدھا گھنٹہ آگے کردی تھی۔ بس یہی فرق تھا جس نے سب کی دوڑیں لگوائی ہوئی تھیں۔

میرے چچا زاد بھائی ارسلان محمود بڑی گھڑیوں کا کام کرتے ہیں، دامن کوہ کے راستے پر کلاک بھی انھی کا کام ہے اور علامہ اقبال یونیورسٹی مورو کے کیمپس پر بھی انھی کی بنائی ہوئی گھڑی نصب ہے۔

دو دن سے ڈائیریا کا شکار ہوں الٹے اور سیدھے دونوں کاموں کا حساب بھی گھڑی دیکھ کر رکھ رہا ہوں پہلے یہ ہر دس منٹ پر آمد تھی پر شفاء ایمرجنسی میں تین گھنٹے رہنے کے بعد اب اس کا دورانیہ تقریبا ہر گھنٹے تک بڑھ گیا ہے، ایمرجنسی بھی کم ہوگئی ہے۔

لائلپور کی ایک بات مشہور ہے ، ایک بابا جی کی گھڑی ٹوٹ گئی۔ ایک لڑکے نے پوچھا بابا جی کی ویلا ہویا اے، پتر ہن کی ویلا ہونا او ویلے ہی نئیں رہے کی دساں، ویلے ویلے دی گل اے ، بابا جی میں عرض کر ریا واں گھڑی تے کی وجا اے، پتر گھڑی تے کی وجا اے بس ایک وٹہ وجا اے تے ٹٹ گئی جے۔ ہور کی دساں۔

اب سنا ہے گھڑیاں اور مہنگی ہوگئی ہیں ۔ میں نے بھی آرمانی کی مہنگی گھڑی خریدی ہے، جوکہ منظور بھائی سعودی عرب والوں کے بیٹے عبید منظور سے خریدی ہے جو لائلپور میں ایمازون کے ساتھ کاروبار کرتا ہے۔ جس سے پتہ چلا اب اچھی گھڑیاں یہاں مقامی طور پر بھی دستیاب ہیں۔ سعودی عرب سے منگوانے کی دقت بھی ختم ہوگئی ہے ۔ بلکہ یوں کہہ لیں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور گھڑی آپ کے پاس گھڑی دو گھڑی میں۔

 

Prev صراط مستقیم
Next سلیز مین

Comments are closed.