اشتہار برائے گمشدگی

اشتہار برائے گمشدگی
تحریر محمد اظہر حفیظ

میں خوابوں میں اتنی دفعہ گرا ھوں کہ اصل زندگی میں اکثر گرنے سے بچ جاتا ھوں یہ میرے رب کا خاص کرم ھے اور تو کچھ بھی نہیں۔ 
کئی دفعہ میرے خواب میں جہاز گر جاتا ھے اور اس کا ملبہ نہیں ملتا کبھی میں اونچی بلڈنگ سے گر جاتا ھوں مجھے شدید قسم کا بلندی کا خوف ھے شاید اس لیئے بلندی پر جانے کی خواھش بھی نہیں ھے کیونکہ میں خوفزدہ ھوکر زندگی نہیں گزار سکتا۔ میں اس کامیابی کا کیا کروں جس میں خوف شامل ھو۔ 
مجھے ھنسنا اور خاموش رھنا اچھا لگتا ھے پر میں بولتا بھی بہت ھوں اور روتا بھی بہت ھوں۔ میں کسی کوبھی دکھ نہیں دینا چاھتا۔ پر میرے آس پاس کے لوگ میری خاموشی اور رونے کے اپنی پسند کے مطلب نکال لیتے ھیں۔ ھر ایک کو سوچنے کی آزادی ھے۔
سوچے میرا کیا نقصان ھے۔ مجھے اچھا لگتا ھے وہ گانا کہ میں انسان ھوں فرشتہ نہیں ڈر ھے بہک نہ جاوں کہیں۔ کبھی کبھی بہکنے کو دل کرتا ھے۔ پھر سوچتا ھوں گر ھی نہ جاوں۔ اس لئے نہیں بہکتا۔ 
سوچ رھا ھوں سارے نشے ٹرائی کروں خیالوں میں اور پھر بہکتا پھروں اپنے خیالوں سے نکل کر کبھی کسی کے خیالوں میں جا گھسوں کبھی کسی کے خیالوں میں۔ 
پھر نگر نگر پھروں کبھی مجھے پولیس پکڑ لے اور کبھی رینجرز پھر انکو بتاوں بھیا نشہ خیال میں کیا ھوا ھے اصل میں نہیں ۔ اور کبھی گاڑی زیگ زیگ چلاوں ٹریفک پولیس روکے تو بھاگ جاوں وہ پیچا کرکے پکڑے تو مسکرا کر بتاوں میں نشے میں ھوں ۔ وہ میرا منہ سونگھے چل کر دیکھانے کو کہے لڑکھڑا کر چلوں اور مسکرا کر بتاوں بھیا نشہ خیال میں کیا ھوا ھے ویسے میں ٹھیک ھوں۔ میں کبھی ڈانسنگ فلور پر جاوں جی بھر کے ڈانس کروں اور پی کر غل غپاڑہ کرنے کے جرم میں پولیس پکڑ لے اور سارے میڈیکل ٹسٹ ٹھیک آئیں تو انکو بتاوں کہ بھائی خیال میں نشہ کیا ھوا ھے اصل میں نہیں۔ کبھی دل کرتا ھے بلند آواز میں گانے گاوں اور سارے جہاں کو تنگ کروں کہ میں نشے میں ھوں۔ رات کے پچھلے پہر شدید ھوائی فائرنگ کروں پولیس اور فوج آجائے پر پکڑا نہ جاوں کیونکہ خیالوں کی آواز آپ کے علاوہ کسی کو نہیں آتی۔ کبھی سوچتا ھوں خیال ھی خیال میں انتقال کرجاوں اور سب آنے والوں کو خود ملوں اور پوچھوں میں تو خیال میں فوت ھوا تھا پر آپ کو کیسے پتہ چلا۔ عجیب و غریب خیال ذھن میں چلتے رھتے ھیں۔ پر اصل زندگی میں میں ان خیالات سے قدرے مختلف ھوں وہ سب جو خیال و خواب میں دیکھ کر ھی میں کانپ جاتا ھوں اصل زندگی میں کیسے کر سکتا ھوں۔ میں کوئی پارسا یا فرشتہ نہیں ھوں عام انسان ھوں اور خطا کا پتلا ھوں پر میرا رب میری ھمیشہ لاج رکھتا ھے اور مجھے گرنے سے بچاتا ھے۔
میں اکثر اپنے آپ میں ھی گم ھوجاتا ھوں اور اپنے کمرے میں لیٹا اپنا گھر ڈھونڈتا رھتا ھوں اور اکثر مجھے میرا گھر نہیں ملتا ۔ مسجدوں میں اعلان کرواتا ھوں اور اپنی گمشدگی کی اطلاع ایدھی سینٹر اور پی ٹی وی پر بھی چلاتا ھوں۔ پر مجھے میں نہیں ملتا۔ میں نے بڑھے بوڑھوں سے سنا تھا اگر کچھ کرنا ھے تو پہلے اپنی میں کو مارو پر مجھے ابھی تک میں ملی ھی نہیں تو ماروں کیسے۔ میں ایک گمشدہ گاوں کا بچہ ھوں جس کو نہ تو اپنا نام آتا ھے نہ ھی گاوں کا نام اور میرے شہر نے بھی اپنا نام بدل لیا ھے اگر ایک انسان نام بدلے تو اخبار میں نام بدلی کا اشتہار دیتا ھے اسٹام پیپر پر عہد دیتا ھے پر میرے شہر میرے تحصیل و ضلع لائلپور نے کسی کو بتائے بغیر ھی اپنا نام بدل لیا ھے اور میں اس کو ڈھونڈتے ھوئے کہیں کا کہیں پہنچ گیا ھوں یہ سامنے شاید فیصل مسجد ھے پر یہ تو میرا شہر نہیں ھے بس ملتا جلتا نام ھے میرے شہر کا پر کہتے ھیں وہ یہاں سے بہت دور ھے اور شاید اب کبھی بھی اپنے گھر نہ پہنچ پاوں کیونکہ ھر گھر سے جو ٹھکا ٹھک پاور لومز کی آواز آتی تھی سنا ھے وہ بھی بند ھوگئی ھے۔ مجھے کوئی نشانی بھی یاد نہیں کوئی تو میری مدد کرے میری گمشدہ کی تصویر لگائے جو مجھے اپنوں تک پہنچنے میں مدد کرے ۔ 
پتہ نہیں اس وقت کہاں ھوں پر دور سے آواز آرھی ھے ۔ 
شاید کوئی گا رھا ھے۔
جن کے اندر شہر بستے ھیں
انکو کیا کہ وہ کہاں رھتے ھیں۔

Prev آبادی کا عالمی دن
Next دعا

Comments are closed.